سعودی عرب کا دورہ کیوں اہم ہے؟


وزیر اعظم شہباز شریف تین روزہ سرکاری دورہ پر مدینہ منورہ پہنچے ہیں۔ اس دورہ کے دوران وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقات کریں گے۔ یہ دورہ ملکی معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سرکاری ذرائع یہ خبر دے چکے ہیں کہ وزیر اعظم اس دورہ کے دوران ساڑھے سات ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی درخواست کریں گے۔

پاکستان کو معاشی نمو میں بے یقینی، آمدنی میں کمی اور ادائیگیوں کے توازن میں سنگین اضافہ کی وجہ سے اس وقت خاص طور سے ایسے دوست ممالک سے امداد سے کی شدید ضرورت ہے جو قرض دینے کے لئے سخت شرائط عائد نہ کریں۔ سعودی عرب طویل عرصہ تک پاکستان کی فراخدلانہ امداد کرتا رہا ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری موجود رہی ہے۔ اس کے متعدد عوامل بتائے جاتے ہیں۔ سابقہ حکومت کے دور میں ایک مرحلہ پر تو سعودی عرب نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے رکھے ہوئے 3 ارب ڈالر واپس طلب کرلئے تھے۔ سرکاری طور سے اس کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی تھی، لیکن یہ ایک طرح سے دونوں ملکوں کے درمیان سرد ہوتے تعلقات کا اشارہ تھا۔ اس کی ایک وجہ کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بھی تھا جس میں انہوں نے سعودی قیادت کی طرف سے کشمیر کے معاملہ پر خاموشی اختیار کرنے اور اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ سعودی قیادت عام طور سے کسی پبلک پلیٹ فارم سے اس قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتی۔

تاہم سابق وزیر اعظم عمران خان گزشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ گئے ہیں۔ تاہم اس دورہ میں حاصل ہونے والی مالی سہولت سخت شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھی۔ پاکستان کے مرکزی بنک میں ایک تین ارب ڈالر رکھنے کے لئے غیر معمولی شرح سود سے منافع وصول کیا گیا تھا۔ خاص طور سے اس معاہدہ کی یہ شرط توجہ کا مرکز بنی تھی جس کے مطابق پاکستان کی طرف سے عدم ادائیگی کی صورت میں سعودی حکومت کو دنیا بھر میں پاکستانی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا ترجیحی حق حاصل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ بظاہر معمول کے تعلقات اور سربراہان کی ملاقات میں مسکراہٹوں کے ساتھ مصافحہ کرنے کے باوجود، ایسی شرائط سے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلوں کا اندازہ کیا جا رہا تھا۔

اس دوران دسمبر 2021 میں پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں اسلامی ممالک نے افغانستان کی امداد کے لئے خصوصی فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس اجلاس کی تجویز سعودی عرب نے ہی دی تھی۔ اسی طرح مارچ 2022 میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا 48 واں اجلاس بھی اسلام آباد میں ہی منعقد ہوا تھا۔ تاہم ان دونوں اجلاسوں کے انعقاد کے باوجود پاکستان کو کوئی سفارتی بریک تھرو نہیں مل سکا۔ دسمبر کے اجلاس میں صرف افغانستان پر بات کی گئی اور اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ حتیٰ کہ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریروں میں بھی کشمیر کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو او آئی سی کی حد تک اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ البتہ مارچ میں منعقد ہونے والے اسلامی ممالک کے اجلاس میں کشمیر کا ذکر موجود تھا لیکن اس میں بھارت پر دباؤ ڈالنے کی بات نہیں کی گئی تھی۔ حالانکہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اور تنظیموں کو بھارتی جارحیت کے خلاف کھل کر سامنے آنا چاہیے اور نئی دہلی کی کشمیر پالیسی اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مذمت کرنی چاہیے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی اس صورت حال کے پس منظر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 16 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف سے فون پر بات کی، انہیں عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی اور سعودی عرب کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اس دورہ کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ دعوت موصول ہونے کے دو ہفتے سے بھی کم مدت میں وزیر اعظم اپنے بھاری بھر کم وفد اور امیدوں کا بھنڈار لئے مدینہ منورہ پہنچ گئے ہیں۔ اس دورہ کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’پاکستان اور سعودی عرب عظیم دوست ہیں۔ ان کی دوستی تاریخی نوعیت کی ہے اور تزویراتی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ ولی عہد کی طرف سے سعودی عرب کا دورہ کرنے کی دعوت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ دونوں ممالک میں گہرے برادرانہ تعلقات استوار ہیں۔ ہم ہر مشکل وقت میں پاکستان کی پرخلوص مدد کرنے پر سعودی لیڈروں کے شکر گزار ہیں۔ اپنے طور پر پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے اور مستقبل میں بھی ہم سعودی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے‘ ۔ اس پیغام میں انہوں نے سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کی بھی تعریف کی اور انہیں بین الملکی تعلقات میں اہم شراکت دار قرار دیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف اس دورہ کے دوران سعودی حکام سے پاکستان کے لئے 7 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے حصول کی کوشش کریں گے۔ اس میں چار اعشاریہ دو ارب ڈالر کی واپسی مؤخر کروانے کے علاوہ تین اعشاریہ دو ارب ڈالر کے اضافی امداد کی درخواست کی جائے گی۔ اس رقم میں دو ارب ڈالر اسٹیٹ بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لئے جمع ہوں گے یوں اس مد میں سعودی عرب کی معاونت پانچ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر تیل خریداری کی مؤخر ادائیگی کے لئے حاصل کرنے کی کوشش ہوگی۔ یہ امداد پاکستان کی نئی حکومت کے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے جسے اس وقت عالمی منڈیوں میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے مطابق ملک میں تیل کی قیمت میں اضافہ کے لئے آئی ایم ایف کے دباؤ کا سامنا ہے۔ سعودی عرب سے مؤخر ادائیگی پر تیل ملنے کے سبب حکومت نئے بجٹ تک تیل کی قیمتوں پر کسی حد تک قابو رکھ سکے گی تاکہ مہنگائی کے علاوہ عوامی ناراضی سے بچنے کا راستہ نکل سکے۔

اس سے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف پیکیج میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ کروانے پر اتفاق کرچکے ہیں اور اب اس سلسلہ میں تفصیلات طے کرنے کے لئے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ شہباز حکومت چین سے بھی سی پیک کے معطل منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور انہیں شروع کرنے کے لئے بات چیت کا ارادہ رکھتی ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں کی ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے نئی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف اور سعودی عرب سے امداد ملنے کے بعد ان ادائیگیوں میں بہتری آ سکتی ہے۔ نئی حکومت کے یہ تمام اقدامات ہنگامی اور فوری نوعیت کے ہیں۔ اگر وہ ان میں حسب خواہش کامیاب ہوجاتی ہے تو ملکی معیشت کو بحال ہونے میں فوری امداد مل سکے گی تاہم حکومت کا اصل امتحان نئے بجٹ کی تیاری کے وقت ہو گا کہ وہ کس حد تک محاصل میں اضافہ کے اقدامات کرتی ہے اور قومی پیداوار میں اضافہ کے لئے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ملکی معیشت کی بحالی غیر ملکی سرمایہ کاری سے مشروط ہے۔

اس مقصد کے لئے چین کے ساتھ غلط فہمیاں دور کرنے کے علاوہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانا ضروری ہے۔ موجودہ سیاسی کشیدگی کے ماحول میں یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی صحت مند اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کسی بھی قیمت پر ملکی انتظامی مشینری کو ناکارہ بنانے کے مشن پر گامزن ہے۔ یہ کام کسی حد تک اس سے پہلے اس وقت حکومت میں شامل پارٹیاں لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیوں کے ذریعے کر رہی تھیں۔ ملکی سیاسی قیادت جب تک اختلافات کو پارلیمنٹ کے فلور پر حل کرنے کے اصول پر اتفاق نہیں کرے گی، ملکی معیشت کو درپیش دور رس خطرات سے نجات پانا ممکن نہیں ہو گا۔

شہباز شریف 50 افراد سے بڑے وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں۔ اس وفد میں کابینہ کے ارکان، حلیف جماعتوں کے لیڈر اور خاندان کے متعدد لوگ شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس دورہ کے لئے پی آئی اے کا بوئنگ حاصل کرنے اور ایک بڑے وفد پر کثیر سرکاری وسائل صرف کرنے پر کڑی تنقید دیکھنے میں آئی تھی۔ البتہ وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ وفد میں شامل ہر شخص اپنے مصارف خود برداشت کرے گا اور وزیر اعظم عام کمرشل فلائیٹ سے سعودی عرب جائیں گے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ حکومت سرکاری دورے کے نام پر معاشی مشکلات کا شکار ملک پر مزید بوجھ کا اضافہ کرنے سے گریز کا اعلان کر رہی ہے لیکن ایک سرکاری دورہ میں اہل خانہ کی بڑی تعداد کی شرکت کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ شریف خاندان کے ارکان سرکاری دورہ سے کے علاوہ بھی حرمین شریفین کی زیارت اور عمرہ کے لئے جا سکتے تھے۔ سرکاری دورہ میں اہل خاندان کو ساتھ لے جانا سرکاری پروٹوکول اور مراعات کا غلط استعمال ہے۔

حکومت کو اس دورہ پر اٹھنے والے مصارف اور وفد کے ارکان کی طرف سے اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کا دستاویزی ثبوت جلد از جلد سامنے لانا چاہیے۔ نئی حکومت کو ملک کے عام لوگوں کو یقین دلانا چاہیے کہ وہ اس منصب کو ذاتی شان و شوکت اور منفعت کے لئے استعمال نہیں کر رہے۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہی موجودہ حکمرانوں کے بارے میں پھیلی ہوئی شدید غلط فہمی اور الزام تراشی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments