اَلطَّہُورُ شَطْرُ الْاِیْمان


ہم چھوٹے تھے، تھوڑے بڑے ہوئے تو سکول بھیجا گیا۔ پھٹے پرانے کپڑے اور میلے گچ پاؤں اور دانت تھے۔ دیہاتی علاقے کے رہائشی تھے سو کسی نے دانت باقاعدگی سے صاف کرنا سکھایا ہی نہیں تھا۔ نانی اماں اپنے لیے مساگ (دنداسہ) لیتی تھیں تو کبھی کبھار ہمیں بھی پکڑ دھکڑ کر دانتوں پر مل رگڑ دیتی تھیں۔ پہلے ہی دن استاد نے میلی کچیلی حالت دیکھ کر ہمیں جو اخلاقی سبق پڑھایا وہ یہی تھا ”الطہور شطر الایمان۔“

ہم سکول سے واپس آئے تو گھر کے ارد گرد بغور دیکھا کیونکہ ابھی تک ذہن میں اسی اخلاقی سبق کی گونج تھی ”الطہور شطر الایمان۔“ گھر کے ارد گرد بغور دیکھنے پر پتہ چلا کہ گند کے بڑے اروڑ (بڑے بڑے ڈھیر) لگے ہوئے ہیں جن میں بجائے اس کے کہ کمی ہو ہر روز بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مگر گھر کے بڑے بھی یہی سبق دہراتے دکھائی دیے ”الطہور شطر الایمان۔“

پھر ہم نے سکول میں جا کر غور کرنا شروع کیا تو اساتذہ کرام رفع حاجت یا ”وٹ سکائی“ کے لیے سکول کے ساتھ ہی سرکنڈوں کے ذخیروں میں لوٹا لے کر دوڑتے دکھائی دیے مگر ہمیں ہر بار یہی سبق پڑھایا جاتا کہ ”الطہور شطر الایمان۔“ مگر یہ کسی نے نہیں سمجھایا کہ کھلے میں پیشاب پاخانہ کرنا ناصرف غیر اخلاقی و بد تہذیبی ہے بلکہ اس سے انسانی صحت پر بھی مضر اثرات پڑتے ہیں۔

ہائی سکول میں پہنچے تو دیکھا کہ اتنے بڑے سکول میں فقط ایک ہی بیت الخلا ہے لیکن اس میں طلبہ کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اساتذہ کرام کی جانب سے کھلا حکم تھا کہ فطرت کی پکار پر سکول کی چار دیواری کے باہر کھیتوں میں جا کر معرکہ سر کرنا ہے مگر سکول میں جا بجا عبارت لکھی ہوئی دکھائی دی ”الطہور شطر الایمان۔“ اسی طرح مزید بڑے تعلیمی اداروں میں پہنچے تو وہاں بیت الخلا کے دروازے پر اندرونی طرف خواتین اساتذہ اور لڑکیوں کے نمبرز لکھے دکھائی دیے مگر ہر طالبعلم اور ہر معلم یہی گردان کرتا دکھائی دیا کہ ”الطہور شطر الایمان۔“

زندگی آگے بڑھی اور ہم نے عملی میدان میں قدم رکھ کر روزی روٹی کے سلسلے میں اپنے گاؤں دیہات سے دوسرے بڑے شہروں میں جانا شروع کیا۔ ملتان لاری اڈے سے بس پکڑتے تھے تو لاری اڈے پہ ہی مشرقی طرف چند بیت الخلا بنے ہوئے تھے جبکہ ان کے مخالف مغربی طرف ایک فلتھ ڈپو تھا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ باگ طبیعت کو ہلکا کرنے کے لیے بجائے بیت الخلا جانے کے فلتھ ڈپو کا رخ کرتے ہیں لیکن ہر شخص جابجا مناسب مواقع پر اسی سبق کو دہراتا دکھائی دیتا ہے ”الطہور شطر الایمان۔“

روزی روٹی کی خاطر گھر سے نکلے تو گھر کی روٹی بھی چھن گئی سو ہوٹلوں پہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ ہوٹلوں پہ پلیٹیں دھونے والے پانی سے لے کر گلاس، جگ سمیت تمام برتنوں سے عجیب سی ہمک آتی محسوس ہوتی لیکن ہوٹل کے ماتھے پر وہی جملہ لکھا دکھائی دیتا ”الطہور شطر الایمان۔“

سوچا یہ پسماندہ شہر کے گھٹیا ہوٹل ہیں، بڑے شہر کے اعلی ہوٹلوں میں جائیں گے تو وہاں اس فرمان کی عملی تفسیر دیکھنے کو ملے گی۔ مگر وہاں بھی حالات سامنے کی طرف صاف ستھرے جبکہ پیچھے کی طرف انتہائی دگرگوں تھے مگر ہوٹل کے استقبالیہ پر سنہری حروف میں لکھا تھا ”الطہور شطر الایمان۔“

لوگوں سے واسطے پڑے، یاریاں دوستیاں ہوئیں، محبتیں قربتیں ہوئیں، بیٹھکیں لگیں، محافل سجیں اور ہم نے بغور دیکھا تو پتہ چلا کہ ہر شخص داؤ کا محتاج ہے مگر اس فرمان پر یقینی ایمان رکھتا ہے ”الطہور شطر الایمان۔“

معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی، قانونی، عدالتی، عسکری الغرض جس بھی معاملے میں جھانکا تو پتہ چلا کہ تمام معاملات میں ہر ایک شخص گند میں لتھڑا ہوا ہے مگر اس فرمان پر ناصرف آنکھیں بند کر کے یقین کرتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً دوسروں کو بھی درس دیتا ہے کہ ”الطہور شطر الایمان۔“

یہ سب کہانی یاد یوں آئی کہ ہمارا چھوٹا بیٹا کبیر عباس چانڈیہ کل سکول سے واپس آیا تو یہی جملہ دہرا رہا تھا۔ اور ہمارے ذہن میں یہ ساری فلم چل گئی۔ بیٹے کو جو ابھی صرف ساڑھے پانچ سال کا ہے اپنے تئیں مختصر الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ صفائی صرف جسمانی ہی نہیں ہوتی بلکہ اندرونی بھی ہوتی ہے۔ یقیناً بیرونی صفائی کی اپنی اہمیت ہے لیکن اندرونی صفائی کے بغیر بیرونی صفائی ضائع ہے، بیکار ہے، دکھاوا ہے، ڈھکوسلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments