لے سانس بھی آہستہ کہ دربار نبیؐ ہے!


قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ سورۃ الحجرات۔ آیت 2

آج بھی روضہ رسول کے اوپر یہ آیت درج شدہ ہے۔ تاکہ آج بھی آنے والے احباب جن کو علم نہیں وہ پڑھ کر جان لیں کہ یہ وہ مقام ہے جہاں اونچا بولنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ اسی مقام پر ممبر رسول سے روضہ رسول تک کے حصہ کو ریاض الجنہ یعنی جنت کا احرام کھول دیے فرمایا گیا ہے۔

تاریخ میں درج ہے کہ امام حسین کو سب سے پہلے مدینہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا گیا امام حسین نے مدینہ چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا میرے نانا کا شہر امن کا گہوارہ ہے۔ مدینہ امن کی جگہ، امن کا شہر ہے، یہاں خون خرابے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ مدینہ سے مکہ حج کی نیت سے تشریف لے گئے۔ جب آپ نے احرام باندھ لیے تو آپ کو پتہ چلا کہ یزید ابن معاویہ نے کچھ لوگوں کو حاجیوں کے روپ میں آپ کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ تو آپ عالی مقام نے باندھے ہوئے احرام توڑ دیے۔

جب آپ کے چاہنے والوں نے پوچھا کہ اے نواسہ رسول آپ حج کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ تو آپ نے کہا کہ اگر میرا خون یہاں بہا دیا گیا تو تاریخ میں درج ہو جائے گا کہ حاجی تو رسول کے نواسے کے قاتل ہوتے ہیں آپ نے حج اور زائرین کے تقدس کو بچانے کے لئے بندھے ہوئے احرام توڑ دیے اور کربلا کی طرف عازم سفر ہوئے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

عبادات ہر انسان کا ذاتی فعل ہے اور دنیا میں کوئی بھی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی کی ذات نے اس کی عبادت قبول فرما لی ہے۔ اس کا فیصلہ آخرت میں ہو گا کہ کس کے اعمال کو قبولیت کی سند بخشی گئی ہے اور کس کے اعمال رد کر دیے گئے ہیں۔

آج جو کچھ مسجد نبوی میں ہوا سیاست سے قطع نظر قابل افسوس ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاریخ میں آج کچھ بد نصیبوں کا نام مسجد نبوی کی حرمت پامال کرنے والوں میں درج ہو چکا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے جب عمران خان کے ساتھ نعرے باری کی گئی تو مریم نواز نے اسی طرح کے فعل کی حمایت میں ٹویٹ کیا اس وقت بھی یہ فعل قابل مذمت تھا۔ آج پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے تو تقدس پامال کرنے کی حد عبور کر لی ہے۔

اسلام میں مسجد کی عزت و احترام پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مسجد میں اونچی آواز سے بولنا شور و غل کرنا دنیاوی گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ حضور پاک ﷺ نے پوری زندگی مکارم اخلاق کی تبلیغ کی، حسن اخلاق پر بہت زیادہ زور دیا۔ اسلام میں اخلاق کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔

مدینے میں جو بھی شخص پہنچتا ہے وہ ظاہر ہے حضور پاک ﷺ کا مہمان کہلاتا ہے۔ جب کسی بھی انسان کی حضور پاک ﷺ کے روضہ مبارک کے گنبد پر پہلی نگاہ پڑتی ہے تو اس کا دل پس جاتا ہے۔ وہ اپنی غلطیوں، خطاؤں، نادانیوں اور گستاخیوں پر پشیمان ہوتا ہے۔ آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں اور وہاں دعا کے لیے ہاتھ بلند کر کے معافی کا طلبگار ہوتا ہے۔ ہم ایک لمحے کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ تمام چور، نا اہل، بدمعاش اور کرپٹ ترین لوگ ہیں کیا ان کے ساتھ پھر بھی دوران عمرہ یہ سلوک جائز ہے؟ کیا ہمارے پاس احتجاجی سیاست کے لیے صرف یہی ایک جگہ بچی ہے؟ کیا ہم اس حد تک شدت پسند اور جنونی ہوچکے ہیں کہ ہم نے مسجدوں اور پھر مسجد نبوی کے تقدس کا خیال بھی نہیں کرنا؟

میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ ہمیں بحیثیت انسان، قوم اور مسلمان اس رویے کی مذمت کرنی ہو گی۔ بات میریٹ ہوٹل سے ہوتے ہوئے مسجد نبوی تک اور اب قاسم خان سوری پر حملے کی اطلاعات ہیں تک پہنچ گئی ہے۔

ابھی تک اس قسم کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ سعودی انتظامیہ حرکت میں آ چکی ہے۔ کافی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ سعودی قوانین بہت سخت قوانین ہیں۔ فیصلہ کرنے کی رفتار بہت تیز ہے۔ اور جب وہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پر سو فیصد عمل کرتے ہیں۔

اگر یہ فعل وہاں پر موجود پاکستانی مزدوروں یا ملازمین کی طرف سے سرانجام دیا گیا ہے تو ان کو ادراک تک نہیں کہ وہاں اور یہاں ان کے خاندان، بچوں اور والدین کے لیے کیا مسائل پیدا ہوں گے۔ اگر یہ فعل وہاں پر عمرہ کی ادائیگی کے لئے موجود لوگوں کی طرف سے سر انجام دیا گیا ہے تو ان پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے گئے ہیں۔ روحانی تسکین یا سیاسی انا، گناہوں اور غلطیوں کی معافی یا دوسروں کو چور کہنے۔

میرے خیال کے مطابق پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو ان کے لیڈران کو سول سوسائٹی کو سنجیدہ طبقات کو اور اساتذہ کو سیاسی انتہا پسندی پر سوچنا ہو گا! اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ہم اپنی آنے والی نسل کو اس جنونی کیفیت کے ساتھ پروان نہیں چڑھا سکتے۔ ان کی اچھی تربیت نہیں کر سکتے۔ سیاسی اختلاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ایک پارٹی سسٹم جمہوریت کا حسن نہیں ہے۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیتی ہے۔ جس بھی مذہب کے پیروکار اپنے مقدسات کا احترام نہیں کرتے دنیا ان کے بارے میں مثبت نہیں سوچتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments