دانتوں کے علاج میں احتیاط کریں


دانت نکلوا کر ہم سب سے بڑی غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ ہم اچھے طریقے سے کھانا نہیں کھا سکتے اور دوسرا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جبڑا اپنی جگہ سے پھسلتا جاتا ہے، تیسرا یہ کہ دانت کی جگہ خالی رہ جانے کی وجہ سے ارد گرد کے دانتوں میں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ڈاکٹر کو بتائیں کہ جس حد تک ممکن ہو، دانت نکلوانے کے بجائے اس کا متبادل بندوبست کرے۔ مثلاً اگر دانت کا کچھ حصہ محفوظ ہو تو ڈاکٹر (صورت حال کو دیکھ کر) اس میں ایک سکریو لگا دیتا ہے اور اوپر مخصوص سیمنٹ لگا کر اسے ساتھ والے دانت کے برابر کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آر سی ٹی کر کے (دانتوں کی جڑیں یا نسیں کاٹ کر) اس پر ایک کیپ یا کور چڑھا دے دیتے ہیں، یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہے مگر یہ بھی تب ممکن ہوتا ہے جب آپ کے دانت کا اتنا حصہ سلامت ہو کہ کیپ بہ آسانی اس پر رکھا جا سکے۔

اگر بالفرض آپ دانت نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو ضرورت محسوس ہو کہ اس کی جگہ دوسرا دانت لگوانا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ نکالے ہوئے دانت کے دائیں اور بائیں کے ایک ایک دانت کو تھوڑا تھوڑا کاٹ کر باریک کیا جاتا ہے تاکہ تین دانتوں کا برج (پل) بنا کر ان کے اوپر رکھا جا سکے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک دانت نکلوانے کی وجہ سے آپ کے دو مزید دانت بھی خطرے کی زد میں آ گئے۔

اگر آپ برج والا آپشن استعمال نہیں کرتے اور آپ اپنے مزید دو دانتوں کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ امپلانٹ کروائیں۔ امپلانٹ میں جبڑے کے اندر ڈرل کر کے آپ کو مصنوعی دانت لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک محفوظ طریقہ ہے، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کا جبڑا کھسکنے سے بچ جاتا ہے۔

امپلانٹ کروانے سے پہلے ایک مخصوص ایکسرے (سی بی سی ٹی) کروانا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آپ کے جبڑے کی ہڈی امپلانٹ لگوانے کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ اگر آپ نے یہ احتیاط نہیں کی تو ممکن ہے کہ آپ کی ذائقے کی حس والی نس خراب ہو جائے اور آپ ساری زندگی کھانے کی لذت سے محروم ہوجائیں۔

دانتوں کی فلنگ کے تین مروجہ طریقے ہیں۔ پہلی طرح کی فلنگ میں چاندی اور کاپر کے سفوف کو پارے میں مکس کر کے دانت کے اندر بھرا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں پارے کی فلنگ ممنوع ہے کیوں کہ پارے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ پارے والی فلنگ کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ دانت بھرنے کے لیے اس میں زیادہ جگہ بنانی پڑتی ہے یعنی آپ کا آدھا دانت فلنگ کی نذر ہوجاتا ہے، اگر کسی وجہ سے وہ فلنگ خالی ہو جائے اور دوبارہ بھرنے کی ضرورت پڑے تو نئے سرے سے دانت کو اندر سے مزید کاٹا جاتا ہے تاکہ یہ پیسٹ اس کے ساتھ چپک سکے۔ (تیسری دفعہ اسی دانت کی فلنگ کو ناممکن ہی سمجھیں ) پاکستان میں اس کا رجحان آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔

دوسری قسم کی فلنگ گلاس آئنمر سیمنٹ کی ہوتی ہے، اچھی کمپنی کا سیمنٹ پائدار ہوتا ہے۔ آج کل جاپان سے درآمد شدہ جی سی کمپنی کے سیمنٹ کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

تیسری قسم کی فلنگ کمپازٹ فلنگ کہلاتی ہے۔ یہ بنا بنایا پیسٹ ہوتا ہے، اسے سرنج کے ذریعے دانت میں بھرا جاتا ہے، اس کے بعد چند سیکنڈ تک ایک مخصوص لائٹ کے ذریعے اسے خشک کیا جاتا ہے۔ اگر اچھی کمپنی کا کمپازٹ پیسٹ دانتوں میں بھرا جائے تو وہ دس سال تک اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دانت کو اچنگ کے ذریعے کھردرا کیا جائے پھر بانڈنگ لگا کر آخر میں پیسٹ لگا دیا جائے۔

زبان کو صاف کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا دانتوں کو برش کرنا، زبان کی صفائی کے لیے ایک آلہ استعمال ہوتا ہے جو آسانی سے مل جاتا ہے، اسے ٹنگ کلینر کہتے ہیں، اس کی قیمت چند سو روپے ہے۔

دانتوں کا خلال بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے سو روپے کی قیمت میں ایک دھاگا ملتا ہے جسے ڈینٹل فلاس کہتے ہیں، آپ اسے دو دانتوں کے درمیان ایک طرف سے دوسری طرف کو پھیرتے ہیں تاکہ اگر خوراک کا کوئی زرہ یا گوشت کا کوئی ٹکڑا بیچ میں پھنسا ہو تو وہ آسانی سے نکل سکے۔

فلاس کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ واٹر فلاسر کے ذریعے پانی کو تیزی سے دانتوں کے بیچ گزارا جاتا ہے۔ یہ دھاگے والے فلاس کا متبادل تو نہیں ہے لیکن کئی صورتوں میں بہتر کام کرتا ہے۔ واٹر فلاسر کی قیمت دس ہزار روپے تک ہے۔

اگر آپ کے مسوڑھوں سے خون آتا ہے تو اس کی وجہ مسوڑھوں کی کوئی بیماری بھی ہو سکتی ہے مگر زیادہ تر سکیلنگ نہ کروانے کی وجہ سے دانت اور مسوڑھوں کے بیچ میل جم جاتی ہے جو آپ کے مسوڑھوں کو زخمی کرتی ہے اور نتیجتاً اس سے خون آنے لگتا ہے۔

ٹیڑھے دانتوں کو سیدھا کروانے کے لیے بریسز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک قسم کے بریسز وہ ہوتے ہیں جس میں اسٹیل کی وائر اور بریکٹ لگے ہوتے ہیں، اکثر لوگ اس قسم کے بریسز لگانے سے کتراتے ہیں کیوں کہ وہ شاید اچھے نہیں دکھتے۔

دوسری قسم کے بریسز نادیدہ بریسز ہوتے ہیں۔ یہ دانتوں کے اوپر اس طریقے سے چڑھائے جاتے ہیں کہ بہ ظاہر یہ آپ کے اپنے دانت محسوس ہوتے ہیں۔ اسے آپ بہ وقت ضرورت اتار بھی سکتے ہیں اور دوبارہ خود فکس بھی کر سکتے ہیں۔

جس کسی کے دانت غیر ہم وار ہوں، معمولی ٹوٹے ہوں، کھردری سطح والے ہوں، یا اس قسم کے پیلے ہوں کہ جو کسی صورت سفید نہ ہوسکتے ہوں، اس کے لیے ونیر veneer ایک اچھا حل ہے۔ ونیرز میں دانت کی سطح کے اوپر ایک باریک سفید تہہ چڑھائی جاتی ہے جو دانت کے ساتھ اس طرح چپک جاتی ہے کہ دانت کا مستقل حصہ بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments