مذہبی مقامات کا احترام تو ملحد بھی کرنا جانتے ہیں


اٹلی میں لوگ اتنے مذہب بیزار ہیں کہ ہر بات میں خدا کو گالی دینا ان کا تکیہ کلام ہے۔ وہاں چھوٹی سی چھوٹی مشکل میں بھی خدا کو گالی دینا ایک معمول کی بات ہے۔ اگر کسی کی گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی، لکھتے ہوئے کسی کا قلم نہیں چل رہا، کسی مکینک سے مشین کا کوئی نٹ نہیں کھل رہا، کسی ڈاکٹر کے پاس رش زیادہ ہو گیا ہے کسی دفتر میں کام کرنے والے کا کمپیوٹر آن نہیں ہو رہا، کسی خاتون سے کھانا بناتے ہانڈی جل گئی، راہ چلتے کسی کو ٹھوکر لگ گئی یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے انہیں سرخ بتی نظر آ گئی یا کبھی ٹریفک میں پھنس گئے الغرض کسی بھی عورت یا مرد سے کوئی معمولی سا کام بھی نہیں ہو رہا تو وہ آسمان کی طرف سر اٹھائے گا اور خدا کی ذات کو گالی دینا شروع کردے گا۔

کوئی اطالوی تھوڑا اس سے آگے بڑھے گا تو حضرت مریم علیہ السلام کو بھی گندی گالیاں دینا شروع کر دے گا۔ ان کے اس طرز عمل سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ بحیثیت ملحد وہ ہر مذہبی شخص او ر ہر مذہبی مقام سے بھی اتنی ہی نفرت رکھتے ہوں گے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے اٹلی میں آپ کسی بھی چرچ میں جائیں تو آپ کو اس کے تقدس کا پورا پورا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ عورتوں کے چرچ میں داخل ہونے سے پہلے ان کا لباس مناسب ہونے کی شرط عائد ہوتی ہے۔

ایک دفعہ چرچ کے اندر داخل ہو گئے تو آپ کو سرگوشیوں میں بات کرنا ہوتی ہے۔ چرچ میں عبادت ہو رہی ہو یا نہ اس بات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی صورت میں اس کا تقدس مجروح نہ ہو چرچ کے صحن تک کے احترام کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایسی ہر ہدایت پر عمل کرنا ہر وہ شخص بھی ضروری سمجھتا ہے جو خدا کی ذات پر بھلے ہی یقین نہ رکھتا ہو اور اسے گالیاں دیتا ہو۔ میرے ساتھ چند ایسے واقعات ہوئے جو میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا

اٹلی میں سکول کے بچوں کے لئے ہم ایک دفعہ احتجاجی تحریک چلا رہے تھے۔ انڈین بچوں کے بارے میں ایک متعصبانہ رول کے خلاف احتجاج تھا۔ یہ مسئلہ ملکی سطح پر اہمیت اختیار کر گیا۔ مقامی و قومی اخبارات اس کو روزانہ کی بنیاد پر موضوع بنا رہے تھے۔ ہماری ٹریڈ یونین نے اس مسئلے کو اٹھایا۔ سکولوں کی یونین کا لیڈر میرا کولیگ تھا۔ پکا کمیونسٹ اور پکا خدا بیزار مذہب بیزار تھا۔ چونکہ امیگرنٹس کا معاملہ تھا اس لئے میری حیثیت بھی اس احتجاج میں مرکزی تھی۔

فیصلہ ہوا کہ ہم شہر کے ہر سکول کے باہر مظاہرہ کریں گے۔ ایک صبح ہم شہر کے مرکزی سکول پہنچے۔ میڈیا موجود تھا اور ہم سب سکول کے باہر کھڑے ہو کر احتجاجی نعرے لگا رہے تھے، جب سکول کا پرنسپل اور اساتذہ آتے تو ہم بھی شیم شیم کے نعرے لگاتے۔ میڈیا سکول میں آنے والے اطالوی والدین کو سوالوں کی بوچھاڑ سے خوب تذلیل کرتا۔ ایک گھنٹہ ادھر کھڑے ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ ہم شہر کے دیگر سکولوں کے باہر بھی جائیں گے اور اسی طرح احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

ہم جلوس کی شکل میں ہر سکول کے باہر جاتے اور اسی طرح نعرے بلند کرتے اپنے اشتہار سکول انتظامیہ کو دیتے اور اگلے سکول کی طرف بڑھ جاتے۔ پھر اچانک ہمارے راستے میں ایک کیتھولک سکول آ گیا جس کے ساتھ چرچ بھی تھا اور ننز کا کانونٹ۔ ہم اس جانب بڑھنے لگے تو سکول یونین لیڈر اور تمام صحافی مجھے کہنے لگے کہ تمام امیگرنٹس کو کہو کہ اب خاموش ہوجائیں اور نعرے نہ لگائیں خاموشی سے جا کر سکول کی بیل دیں اور اپنا احتجاجی پوسٹر پیش کر آئیں۔

ہم سب خاموش ہو گئے میں نے سکول کی بیل دی سکول سے ایک نن باہر آئی وہ اپنے مذہبی لباس میں موجود تھی۔ ہم نے اسے اپنا احتجاجی مراسلہ پیش کیا اور وہاں سے ہم خاموشی سے باہر نکلے تو میں نے یونین لیڈر اور صحافیوں سے پوچھا کہ ہم نے یہاں نعرے کیوں نہیں لگائے وہ کہنے لگے کہ مانا ہم مذہب پر یقین نہیں رکھتے لیکن جو لوگ مذہب پر یقین رکھتے ہیں نا صرف ان کا احترام کرنا جانتے ہیں بلکہ ان کے مقدس مقامات کے احترام کا بھی خیال رکھتے ہیں اس سکول کے ساتھ ایک چرچ تھا اور ایک کانونٹ ہے ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اپنی سیاست اور اپنے احتجاج کے لئے ان کے مقدس مقامات میں شور مچائیں، ہلڑ بازی کریں، اور نعرے لگائیں مقصد جتنا بھی نیک ہو مذہبی مقامات کو تماشے سے دور رکھنا چاہیے احتجاج اور لانگ مارچ کے لئے سڑکیں بنی ہوئی ہوتی ہیں مذہبی مقامات اس کے لئے نہیں ہوتے

اٹلی میں تعلیم کے دوران ہی پاولو ہمارا جغرافیہ کا پروفیسر اور پرنسپل بھی تھا۔ وہ بھی پکا ملحد تھا، لیکن بہت ہی حلیم طبع تھا۔ میں پاکستان سے گیا تھا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی اسٹوڈنٹ کسی پروفیسر کی بات نہ مانے لیکن میں نے نوٹ کیا کہ اس کے لیکچر کے دوران کچھ لڑکے لڑکیاں باتیں کرتے رہتے، ہنستے رہتے موبائل فون دیکھتے رہتے لیکن وہ ہر وقت کوائیٹ پلیز سے زیادہ کسی کو ڈانٹتا نہیں تھا۔ مجھے اس کی نرمی پر بہت غصہ آتا تھا کہ یہ کبھی سخت ایکشن کیوں نہیں لیتا۔

ایک دن ہم بریک پر تھے کہ باہر مسیحیوں کا ایک جلوس عبادت کرتا ہوا گزرا اور ایک کونے میں کچھ موم بتیاں جلانا شروع ہو گیا وہ کچھ پڑھ رہے تھے جسے دیکھ کر کچھ نوجوان ہنسنا شروع ہو گئے اور اونچی آواز میں قہقہے لگانا اور ہوٹنگ کرنا شروع ہو گئے۔ اتنے میں پروفیسر پاولو بھی وہیں پہنچ گئے اور انہوں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ اس دن انہیں میں نے پہلی دفعہ غصے میں لال دیکھا ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بغیر انہوں نے ان لڑکوں اور لڑکیوں کو کہا کہ تم لوگ ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ اور آج کے بعد مجھے کبھی کلاس میں نظر نہ آنا۔ اب وہ لڑکے لڑکیاں ترلے منتوں پر تھے لیکن پروفیسر صاحب اس دن کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے

مارکو چیزی ہمارے علاقے کا انسپکٹر تھا۔ پاکستانی شہریوں کو اٹلی میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ قانون کا احترام کرنے والے ہیں۔ لیکن پھر بھی سال میں ایک دفعہ تو ضرور آپس میں جھگڑ پڑتے تھے اور یہ جھگڑا اکثر کرکٹ گراؤنڈ میں شروع ہو کر ہاتھا پائی اور آخر میں بلوں اور وکٹوں سے ایک دوسری کی پٹائی پر ختم ہوتا تھا وہ پولیس کی ٹیم لے کر سب کو پکڑ کر تھانے لے آتا۔ لیکن تھا بہت اچھا، ان پر کیس فائل کرنے سے پہلے وہ اکثر مجھے فون کرتا تھا۔

میں تھانے پہنچتا۔ اور اسے ایک ہی بات سمجھاتا کہ اگر ان کے خلاف کیس رجسٹر ہو گیا تو یہ کبھی اطالوی شہریت نہیں لے سکیں گے۔ ہم دونوں گروپس کی صلح کراتے اور بات آئی گئی ہوجاتی لیکن ایک دن اس نے ایک گرفتاری کی تو میرے جانے سے پہلے ہی وہ کیس رجسٹر کرنے کی تیاری میں تھا۔ اس دن میں نے دوبارہ توجیہہ پیش کی لیکن وہ اس دن بہت غصے میں تھا کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے کہا آج اس غصے کی وجہ کیا ہے وہ بولا آج یہ لڑتے لڑتے چرچ میں داخل ہو گئے تھے۔ میں لڑائی تو معاف کر سکتا ہوں لیکن کسی مذہبی مقام کی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔ اور پھر اس نے کیس رجسٹر کر دیا اور میں ذاتی طور پر اس نوجوان کو جانتا ہوں، اسے کبھی اطالوی شہریت نہیں مل سکی۔

یہ تینوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مقدس مقامات کی عزت اور حرمت کا خیال وہ بھی رکھتے ہے جو خود کو لادین کہتے ہیں۔ وہ بھی کرتے ہیں جو خدا کو گالیاں دیتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں جو کسی خدا پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جمہوری جد و جہد کیا ہے۔ ایجی ٹیشن کہاں کرنی ہے۔ نعرے کہاں لگانے۔ خاموش کہاں ہونا ہے شور کہاں مچانا ہے اتنی سی عقل تو انسان کے تحت شعور میں بھی موجود ہوتی ہے۔ لیکن ٹویٹر اور سوشل میڈیا کو ادب سمجھنے والی اور ٹک ٹاک سے علم کی روشنی وصول کرنے والے روبورٹ ہوتے ہیں عقل و شعور سے پیدل۔

جو آزادی اظہار رائے اور بد تہذیبی کو ہم معنی سمجھتے ہیں، جو اختلاف رائے اور بداخلاقی کو مترادف سمجھتے ہیں جو مے خانے اور مسجد میں فرق نہیں جانتے وہ جانوروں سے بھی بد تر ہوتے ہیں۔ ہم نے پرندوں کو کعبے اور مدینہ میں سراپا احترام پایا۔ بلیوں تک کو دبے پاؤں ٹہلتے دیکھا اتنا شعور تو انہیں بھی اللہ نے عطا کیا ہے۔ بڑے ہی بدبخت تھے وہ لوگ جنہوں نے اپنی ہلڑ بازی، شور شرابے اور سیاسی نعروں کے لئے اس جگہ کو منتخب کیا جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے ادب و احترام سے اترتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments