حب الوطنی اور ذاتی دوستی کی گرہیں


ہم لوگ ایک معاشرے میں رہنے کے باوصف ایک دوسرے سے مربوط ضرور ہیں، اور اسی بنیاد پر ہماری دوستی بھی قائم ہوتی ہے، تاہم اس دوستی کے آگے اگر وطن کے دستوری تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا جائے تو اس سے بڑی خود غرضی اور ذاتی مفاد پرستی کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وطن سے محبت کا دعوی زبانی لحاظ سے کرنا تو نہایت آسان ہے، تاہم اس کا حقیقی منظر اس وقت نکھر کر سامنے آتا ہے، جب اس کے وقار اور سالمیت کی خاطر انسان آزمائش سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر کوئی مدعی اپنے اس دعوی میں سچا ہو تو وہ، ذاتی دوستی، مفاد اور انا سب کو پس پشت ڈال کر، اپنے وطن سے محبت کے دعوی کو نبھاتا ہے۔

تاہم حالیہ دنوں کے اندر ہماری مقننہ کے اندر ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب ایک انتہائی اہم عہدے پر متمکن شخصیت کے سامنے آئین کے تحت کارروائی کر کے عدم اعتماد پر رائے شماری کروانے اور ذاتی دوستی کو نبھانے کے درمیان ایک راستہ چننے کی آزمائش درپیش تھی، جس میں اس نے اول الذکر کی بجائے موخر الذکر کو چن کر دستور کی بالا دستی کی بجائے ذاتی دوستی کے میدان میں سرخرو ہونے کا چناؤ کیا۔ اس عمل کے نتیجے میں موصوف کسی کی آنکھ کا تارا تو بن گئے، مگر اپنی حب الوطنی پہ سوالیہ نشان لگا کر چھوڑ گئے۔

اس شخص کا یہ اقدام کچھ کم اذیت ناک نہیں تھا، مگر اس سے زیادہ حیرت اس عوام کالانعام پہ ہوتی ہے، جو ان کے اس اقدام کو بنظر تحسین دیکھ کر پیغام تہنیت ایک دوسرے کو دیتے نظر آتے ہیں جو دراصل ہمارے معاشرے کے منافقانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم شب و روز اہل مغرب کی تہذیب پہ تبرا بھیجنے اور ان کے معاشرے کو غلیظ خطابات سے نوازنے کو عین کار ثواب جانتے ہیں، مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کیا کسی مغربی ملک میں کوئی جماعت مذکورہ بالا حرکت کی مرتکب ہو سکتی تھی؟

دور مت جائیے اپنے پڑوسی ملک کو ہی دیکھیے، کیا وہاں بھی کوئی جماعت پارلیمان کی اس انداز میں بے توقیری کا سوچ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں، کیونکہ وہاں شخصی مفادات اور ذاتی دوستیاں، ملک کے آئینی تقاضوں کو نبھانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں ان کا جو وقار ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں اور ہمارا جو حال بے حال ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں ہے۔

آج جو ایک سیاسی جماعت ملک کے وقار کی بحالی کے نام پر سڑکوں پر رقصاں ہے، اور جو اپنے ماسوا سب کی حب الوطنی سے انکاری ہے، وہ اس کے وقار کی بحالی کے عملی اور حقیقی تقاضے مثلاً آئین کی بالادستی، مقننہ کی حاکمیت کا اعتراف، رائے عامہ کے نکتہ نظر کا احترام، فریق مخالف کے الزام کا دلیل سے جواب وغیرہ سے مگر یکسر نابلد ہے۔ اس کے نزدیک حب الوطنی کی سب سے بڑی علمبردار اگر کوئی ہے تو یہی جماعت ہے، مگر دوسری طرف اس جماعت کے اپنے نامہ اعمال میں آئین شکنی اور مقننہ کی حاکمیت سے روگردانی کے سوا کوئی دوسری چیز موجود نہیں۔

یہ بات کیا کسی لطیفے سے کم ہے کہ اس جماعت کی اور اس کے افراد کی سیاسی اٹھان ہی مرکز گریز رجحانات اور مجموعی قومی تقاضوں سے انحراف سے عبارت ہے، اور جس کے اراکین علی الاعلان فخریہ انداز میں یہ بات ببانگ دہل کہیں کہ وہ ’امیر المومنین‘ کے ساتھ دوستی کے تقاضوں کو نبھانے میں اس قدر نمک حلال ہیں کہ اس دوستی کے کوہ ہمالیہ کے آگے بارہ صفحات کا کتابچہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اورآں جواب غزل قائد تحریک اپنے معتقدین کے سامنے، جب اس انسان کو اپنا ہیرو بنا کر پیش کرے، تو اس وقت عقل اس واہمے کا شکار ہوجاتی ہے کہ آیا یہ لوگ جو ملک کے وقار کی سربلندی کی بات کرتے ہیں، یہ کیا واقعی اپنے دعوی میں مخلص ہیں؟ کیا حب الوطنی کا ادعا شخصیت پرستی کا احیاء چاہتی ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم حب الوطنی کے تقاضے سے جانے یا انجانے میں اغماض برت کر غلط راہ پہ گامزن ہوں۔

ملک سے حب الوطنی کا دعوی اپنے تئیں اس بات کا تقاضا کرتا ہے، کہ اس کے دستور کی ایک ایک شق کے آگے ہم اپنی گردن جھکا دیں، اور عوام کے حق نمائندگی کو تسلیم کریں۔ کیونکہ آج کی مہذب دنیا جمہوری روایات اور جمہوری نظام کے تحت ہی چل رہی ہے، جس میں ملک کا سربراہ مقننہ کے سامنے اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہوتا ہے، اور جیسے ہی وہ سمجھتا ہے کہ وہ مقننہ میں اپنی اکثریت کھو بیٹھا ہے، تو وہ نہایت مہذب انداز میں اپنی کرسی کو چھوڑ کر اقتدار سے الگ ہوجاتا ہے۔

تاہم اس کے برعکس ہمارے یہاں ساڑھے تین برس تک عوام کا خون نچوڑنے اور ملک کی عزت کو سر بازار نیلام کرنے والے شخص کے خلاف جب عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوتی ہے تو جماعت کے سپیکر کس رعونت سے آئینی عمل سے روگردانی کرتے ہوئے، برسر منبر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی تیس سالہ رفاقت کی خاطر ملک کے دستور کو پاؤں تلے روندنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔

لہذا بحیثیت قوم ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ان آئین شکن شخصیات کے ان سیاہ کارناموں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو ووٹ کی طاقت سے اس طرح شکست دیں کہ ان کو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہو۔ کیونکہ ان کے اس طرز عمل نے ہمیں بحیثیت قوم شدید خفت سے دوچار کیا ہے، جس کا علاج جمہوری طریقے سے ہی کر کے ان قانون شکن عناصر کو نشان عبرت منانے میں ہے۔ اس لئے کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اس کی عزت، اس کا وقار اور اس کی سلامتی دراصل ہماری ہی عزت، وقار اور سلامتی ہے۔ مگر ہم نے اب بھی اس موقع پر اگر ذاتی اغراض اور دوستی کو مقدم رکھا، تو پھر اقوام غیر سے ملک کے بے توقیری کا شکوہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments