یہ ریاست ہے یا طاقت ور اشرافیہ کا اکھاڑا؟


اس وقت ملک میں جو سیاسی، آئینی اور عدالتی انتشار برپا ہے، اس کی ذمے داری جس پر عائد ہوتی ہے، اس کا سب کو علم ہے۔ جو ادارہ ملک پر کبھی براہ راست آمریت مسلط کرتا ہے اور کبھی جمہوری حکومتوں کی آڑ میں اپنی آمرانہ حکم رانی کے مزے لوٹتا ہے، وہ اپنی سنگین غلطیوں پر نہ کبھی شرمندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان غلطیوں سے کوئی سبق سیکھتا ہے۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے سیاست دانوں کو اپنا زیر دست رکھنے کے لئے نت نئے تجربے کرتا ہے اور جب اس کے تجربے ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کے ناخوش گوار نتائج سیاست دانوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاست دانوں اور جمہوریت کو گالی بنا دیا جاتا ہے اور عوام کے ذہنوں میں راسخ کیا جاتا ہے کہ سیاست دان نا اہل، کرپٹ اور غیر محب وطن ہیں جب کہ جمہوریت ایک ناکام نظام ہے۔

اس وقت عمران خان نیازی کی شکل میں جو فتنہ اگست 2018 ء میں ملک پر مسلط کر دیا گیا تھا، اس سے 10 اپریل 2022 ء کو ملک و قوم کو نجات ضرور مل گئی ہے لیکن بقول فتنہ فراز ”اسے اگر اقتدار سے باہر کر دیا گیا تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہو گا“ اور ایسا ہی ہوا۔ اسے ایک آئینی اور جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار سے محروم کر دیا گیا لیکن جس طرح اس نے غیرآئینی ہتھ کنڈوں کے ذریعے اپنے بچاؤ کے لئے آخری حد تک ہاتھ پاؤں مارے، اس نے پاکستان کی تاریخ میں ضد، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی شرم ناک مثال قائم کی۔ وہ آئین، قانون اور عدالتی احکام کی بے توقیری کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔

اس کے پونے چار سال کے دور حکومت میں ملک کے تمام شعبے جس طرح زوال پذیر ہوئے، اس نے عام آدمی کی زندگی میں پہلے سے موجود مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ بیڈ گورننس تو اس کی حکومت کا محض ایک پہلو ہے لیکن اس نے ملک کی سیاست میں مجموعی طور پر نفرت اور انتہاپسندی کی جو آلائش شامل کی ہے، اس کی تطہیر میں خدا جانے کتنا عرصہ لگے گا۔ اس نے نوجوان نسل کے ذہنوں میں نفرت، دشنام طرازی، بد تمیزی اور عدم برداشت کا ایسا زہر بھر دیا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے لئے مسجد نبوی ﷺ میں بھی سیاسی نعرہ بازی اور گالم گلوچ سے باز نہیں آتی۔

اس وقت عمران نیازی جس طرح بیرونی سازش کا تذکرہ کر کے اپنے علاوہ سب کو غدار اور ملک دشمن قرار دے رہا ہے، اس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے اور ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت جنم لے رہی ہے۔ عمران نیازی کا لب و لہجہ تو اول روز سے ہی کبھی مہذب اور شائستہ نہیں رہا ہے لیکن اس وقت وہ اقتدار سے محرومی کے بعد شعلہ جوالہ بن چکا ہے۔ فوج، پارلیمنٹ، مخالف سیاست دان، آئین، قانون اور الیکشن کمیشن اس کے الزامات کی زد پر ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر اقتدار میں نہ رہا تو کوئی بھی اقتدار کا اہل نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں لیکن ان کے ادوار حکومت میں سیاست میں کبھی اس طرح کی غیر مہذبانہ، ناشائستہ، جابرانہ اور انتہاپسندانہ آلائشیں شامل نہیں ہوئی تھیں۔ عمران نیازی کی طرح فسطائیت اور آئین و قانون سے انحراف کے بدترین مظاہر دیکھنے میں نہیں آئے تھے لیکن عمران نیازی نے تو اپنے اقتدار کے لئے ہر حد ہی پار کرلی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو جمہوریت کی ناکامی سمیت تمام خرابیوں کی جڑ وہی ایک ادارہ ہے جو اپنی مرضی سے حکومتیں بناتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق انھیں مختلف حیلوں سے رخصت کرتا ہے۔ اس کے کرتا دھرتا خود تو ہر طرح کی مراعات سے فیض یاب ہوتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹوں اور تا حیات سہولتوں کے اہل ٹھہرتے ہیں اور اکثر و بیشتر باہر کے محفوظ اور خوشحال ممالک میں مقیم ہو کر بقیہ زندگی عیش و نشاط میں گزارتے ہیں لیکن ملک کو مسائل اور مشکلات کے ایک ایسے گرداب میں ڈال دیتے ہیں جس میں ریاست، جمہوریت اور عوام مسلسل چکراتے رہتے ہیں۔

اب اداروں کے لئے یا تو عمران نیازی درد سر بن چکا ہے اور یا وہ تماشائی بن کر ملک میں آئینی بحران، عدلیہ کی بے توقیری اور سیاسی انتشار کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ عوام کا سیاست دانوں اور جمہوریت پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے اور خود وہ ہمیشہ کی طرح پس پردہ بادشاہ گر اور بالواسطہ با اختیار رہیں۔

اس ملک کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ جن جمہوری حکمرانوں کو عوام منتخب کریں، انھیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے، انھیں اپنی حکومت کا دورانیہ پوری طرح دل جمعی سے پورا کرنے دیا جائے، ان کے خلاف مخالف جماعتوں اور شدت پسند مذہبی گروہوں کو مجتمع اور سرگرم نہ کیا جائے۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی قانون ضرور بنایا جائے تاکہ بدعنوانی اور نا اہلی کا سد باب کیا جا سکے لیکن جمہوری اداروں کو بہ ہر صورت مضبوط بننے دیا جائے اور آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں سختی کی جائے بلکہ ریاست کی رٹ قائم کرنے میں کسی رو و رعایت سے کام نہ لیا جائے۔ جس ریاست میں آئین اور قانون کی عمل داری ممکن نہ ہو، وہ ریاست، ریاست نہیں رہتی بلکہ وہ طاقت ور گروہوں اور با اثر اشرافیہ کا اکھاڑا بن جاتی ہے۔

عمران نیازی کا فتنہ ملک و قوم پر جن قوتوں نے مسلط کیا تھا، اب وہ ہی اسے لگام ڈال سکتی ہیں ورنہ اس نفسیاتی مریض اور ذہنی بیمار کے جارحانہ، متشددانہ اور انتہاپسندانہ روئیے سے ملک و قوم اور پاکستانی معاشرے کو جو نقصان ہو گا، اس کی ذمہ داریوں میں سے وہ ہرگز بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments