مسجد نبوی واقعہ: جیت کس کی ہوگی


دلائل کے دفاتر بھرے پڑے ہیں۔ گزشتہ روز اگر مسجد نبوی میں ہونے والے سانحہ پر دکھ و اندوہ کا اظہار کرنے اور اس واقعہ کی حمایت کرنے والوں کو فیس بک پر فرینڈ لسٹ سے ہٹانے کا اعلان کرنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے تو ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اس واقعہ سے عبرت پکڑنے کا سبق دیتے ہوئے یہ بتا رہے ہیں کہ ’اللہ جسے چاہے جیسے چاہے ذلیل کرتا ہے‘ ۔

ایک طرف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ مسجد نبوی کو سیاسی اکھاڑہ بنا کر مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی توہین کی گئی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کے احترام کا حکم خود باری تعالیٰ نے ارشاد کیا ہے پھر وہ کیسے مسلمان ہیں جو روضہ اقدس کی زیارت کرنے اور ثواب کی گٹھڑیاں باندھنے گئے تھے لیکن وہاں پر سیاسی نعرے لگاتے ہوئے تمام دینی شعائر کو بھول گئے۔ انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ روضہ اقدس پر جو آیات تحریر ہیں، ان میں آواز دھیمی رکھنے اور احتیاط کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس رائے کے مطابق روضہ رسولﷺ مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ وہاں پر دھکم پیل، نعرے بازی اور سیاسی اشتعال انگیزی سے اس تقدیس کو پامال کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

رد دلیل بھی کم متاثر کن نہیں ہے۔ ایک تو یہی کہ اگر کوئی چور ہے تو اسے چور نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا۔ اور ان کے لیڈر کا یہ انتباہ بھی کہ یہ لوگ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، پاکستانی ’عوام‘ ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے بہر حال چوروں کو چور کہنے کے ’جذبے‘ کا احساس دلاتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ ’لوگوں میں جو غصہ پایا جاتا ہے ہمیں اس کا احساس ہے لیکن مقدس مقامات کے تقدس کا احترام کرنا ہم سب پر لازم ہے‘ ۔ اس بیان میں کوئی ملال نہیں ہے لیکن سیاسی ضرورت کے تحت ایک لائن لینا بھی ضروری خیال کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف ہی کے ایک لیڈر علی محمد خان نے سیاسی اختلاف سے قطع نظر اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی بات کی ہے۔ واضح رہے علی محمد خان ہی وہ واحد رکن قومی اسمبلی تھے جو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر تمام اراکین کے واک آؤٹ کرنے کے باوجود ایوان میں موجود رہے اور عمران خان کے اقدامات کی تائید میں آواز بلند کی تھی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ’ہزار سیاسی اختلاف ہو لیکن اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور نہ ہی سیاسی اختلاف دشمنی میں بدلے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد نبویﷺ یا اس کے احاطہ میں کسی بھی صورت میں نعرہ بازی مناسب نہیں۔ یہ آداب کے خلاف اور سخت منع ہے۔ یہ عوامی ردعمل تھا لیکن مسجد نبویﷺ کا احترام ہر صورت، ہر حال میں مقدم ہے‘ ۔

عوامی رد عمل کا قضیہ بھی بہت خوب ہے۔ تحریک انصاف کے دوست اس ہلڑ بازی اور شرمناک نعرے بازی کو اس موقع پر موجود ’پاکستانیوں‘ کا فوری رد عمل قرار دے رہے ہیں۔ اس موقف کے مطابق لوگ بدعنوان اور ملک لوٹنے والے لوگوں کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں پا سکے تو غیر ارادی طور پر نعرے بازی شروع کردی۔ اگر معاملہ نعرے بازی تک ہی محدود ہوتا تو شاید اس دلیل کو مانا جاسکتا تھا۔ یا پھر واقعی یہ نعرے انہی لوگوں کے خلاف لگائے جاتے جن کا نام لے کر سابق وزیر اعظم عمران خان ’چور اچکے‘ کا بیانیہ فروغ دیتے رہے ہیں اور جن کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں بدعنوانی کے الزامات میں مقدمات بھی زیرسماعت ہیں۔ لیکن جو ویڈیو نشر کی گئی ہیں یا موقع پر موجود ’عوام کے کارنامے‘ پاکستان میں موجود ’عوام‘ تک پہنچانے کے لئے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاری کی گئی ہیں، ان کے مطابق ان ناراض عوام کے نشانے پر شاہ زین بگٹی تھے جن کے بال تک نوچے گئے یا مریم اورنگ زیب تھیں جنہیں خاتون ہونے کی رعایت بھی نہیں دی گئی اور گالیاں نکالی گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں وفاقی وزیروں کے خلاف مالی بدعنوانی کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ لڑائی واقعی ملک لوٹنے والوں کے خلاف ہی تھی تو ان بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس حوالے سے مریم اورنگ زیب کا اس سانحہ کے بعد جاری ہونے والا ویڈیو پیغام ایک اہم نکتہ کی طرف ضرور اشارہ کرتا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ فعل ایک مخصوص گروپ نے کیا جبکہ زیادہ تر پاکستانی مقدس مسجد کے تقدس کا احترام کرتے ہیں۔ میں اس واقعے کے ذمہ دار شخص کا نام نہیں لینا چاہتی کیونکہ میں اس مقدس سرزمین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کی ہے۔ تاہم جس طرح ان لوگوں نے ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے تو ہمیں ان معاملات کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ ہم اسے صرف مثبت رویے کے ذریعے ہی بہتر کر سکتے ہیں‘ ۔

مثبت رویے اختیار کرنے کی بات کرنے پر مریم اورنگ زیب کے موقف پر آمنا و صدقنا کہنا چاہیے لیکن پاکستان میں سیاسی گروہ بندی اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کا جو رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ نفرت و حقارت کی اس آگ پر جلد قابو پایا جا سکے گا۔ اور جن سیاسی حلقوں کو اس نفرت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال آگے کر کے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس پریشانی کی دو وجوہات ہیں۔

ایک تو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کی طرف سے مسجد نبوی میں سانحہ کو مسترد کرتے ہوئے جو پیغام عام کیا گیا ہے، اس سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ صبر کا پیالہ لبریز ہوا چاہتا ہے۔ اس کا اظہار وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس میں بھی ہوا ہے۔ انہوں نے سعودی حکومت سے اس معاملہ میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں پاکستانی حکومت کو معلومات فراہم کی جائیں تاکہ پاکستان میں ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کی جا سکے۔ یہ بیان عفو و درگزر سے گریز کا واضح اشارہ ہے۔

پریشانی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ پر تحریک انصاف کی طرف سے پشیمانی کا کوئی اظہار سامنے نہیں آیا۔ اپنے ہمدردوں کے ذریعے ایک خاص موقع پر احتجاج کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اسے عوام کا رد عمل کہہ کو خود کو ’معصوم‘ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے جن زعما نے بھی اس واقعہ پر اظہار خیال کیا ہے انہوں نے مسجد نبوی کی افسوسناک بے حرمتی کی مذمت نہیں کی بلکہ اسے عوام کا فوری رد عمل قرار دیا یا کہا کہ یہ عوام کے غم و غصہ کا اظہار ہے بہر حال اس کے لئے درست جگہ کا انتخاب ضروری ہے۔ اس رویہ کی نمائندگی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کے بیان سے ہوتی ہے جن کا کہنا ہے کہ ’یہ عام پاکستانی ہیں جو اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ سمجھ لینا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ تحریک انصاف کے کارکن ہیں، اس پر انہیں شرم آنی چاہیے‘ ۔

گویا شیریں مزاری یہ اعلان کر رہی ہیں کہ اس واقعہ سے تحریک انصاف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس مسجد نبوی میں بعض لوگوں نے شہباز شریف اور دیگر حکومتی ارکان کو دیکھا تو بے قابو ہو گئے۔ یہ عوامی رد عمل ہے جسے تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ حالانکہ شیریں مزاری نے خود اس واقعہ کا کریڈٹ لینے کے لئے سانحہ کی ویڈیو سب سے پہلے نشر کی تھی۔ البتہ مسجد نبوی میں ہونے والے اس وقوعہ پر سامنے آنے والے رد عمل کے بعد تحریک انصاف کے لیڈروں نے ڈیمج کنٹرول کے لئے بیانات کی نوعیت تبدیل کی۔ ان میں شیریں مزاری بھی شامل ہیں جو ایک طرف اس ’رد عمل‘ پر خوشی کا اظہار بھی کر رہی ہیں لیکن اس کا ’کریڈٹ‘ لینے سے بھی گھبراتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار معلومات سامنے آ چکی ہیں جن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کس طرح عمران خان کے بعض وفادار خاص طور برطانیہ سے یہ احتجاج منظم کروانے کے لئے مدینہ منورہ پہنچے تھے اور موقع پر اس کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرنے میں بھی پیش پیش تھے۔ اب گرفتار ہونے والے لوگوں میں برطانیہ سے آئے ہوئے تحریک انصاف کے بعض حامی بھی شامل ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر اعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے براہ راست عمران خان کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

تحریک انصاف کو یہ احتجاج منظم کرنے پر پاکستانی عوام اور علمائے کرام کے شدید رد عمل کی توقع نہیں تھی۔ نہ ہی یہ امید تھی کہ ’توہین مسجد نبوی نامنظور‘ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگے گا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے چلائے ہوئے ٹرینڈ ہی مقبول ہو کر اور عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اس سانحہ پر تو تحریک انصاف سے براہ راست ہمدردی رکھنے والے مولانا طارق جمیل نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’آج مسجد نبوی میں احتجاج کی صورت میں جو حرم شریف کی پامالی کی گئی، یہ بالکل اسلام میں درست نہیں ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ’توہین مسجد نبوی نامنظور‘ کو ہیش ٹیگ کیا۔ مفتی تقی عثمانی اور دیگر ممتاز علما نے بھی اس سانحہ کی مذمت میں بیان جاری کیے ہیں۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کے لئے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنا سیاسی طور سے مشکل ہو چکا تھا۔ اس لئے ایک طرف مظاہرین سے لاتعلقی ظاہر کی جا رہی ہے اور دوسری طرف ایسی رپورٹیں عام کی جا رہی ہیں جن میں عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ واقعہ مسجد نبوی میں پیش نہیں آیا بلکہ مسجد کے باہر احاطے میں نعرے بازی کی گئی جہاں لوگ جوتوں سمیت جا سکتے ہیں۔

شیریں مزاری کو اگر مخالفین کی طرف سے ناجائز طور پر اس واقعہ کا الزام تحریک انصاف کے سر تھوپنے پر تشویش ہے تو بہتر ہوتا کہ وہ مخالفین کے لتے لینے سے پہلے اپنی سوشل میڈیا ٹیمز کو ہدایت کرتیں کہ اس واقعہ پر نہ تو خوشی کا اظہار کریں اور نہ ہی ’معذرت خواہانہ‘ رویہ اپنائیں۔ بلکہ دو ٹوک الفاظ میں مسجد نبوی کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کے واقعہ کی مذمت کی جائے۔ اور واضح کیا جائے کہ تحریک انصاف بھی پاکستانی عوام کی مذہبی حساسیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ پارٹی کا موجودہ رویہ اس سچائی کی چغلی کھاتا ہے کہ اسی نے اس ناگوار احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ یہ طرز عمل ناقابل قبول، قابل مذمت اور ملک میں نفرتوں کو گہرا کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments