ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو احترام مدینہ سیکھنا ہوگا


جس جگہ احترام خود احترام سے سجدہ کرتا ہو، جس جگہ ادب خود مودب بیٹھ کر ادب سیکھتا ہو، جہاں نظریں جھک کر معراج پاتی ہوں، عزت جہاں سے عزت حاصل کرتی ہو، جہاں تقدس تربیت پاتا ہو، وہاں ہم مسلمان کیا کر بیٹھے؟ یہ کیا ہو گیا ہے ہمیں، ہم سیاست کی شعبدے بازی میں تمام احترام و ادب بھول بیٹھے، جہاں آواز نیچی رکھنی تھی وہاں نعرے لگا ڈالے، جہاں ہاتھ بلند کر کے اپنے گناہوں پر معافی مانگنی تھی وہاں دوسروں پر ہاتھ اٹھا دیا؟

بدبخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے صحن نبوی میں اپنی آوازیں بلند کی اور اس کے تقدس کو اپنے غلیظ سیاسی نعروں سے پامال کیا اور اس سے بڑے بدبخت وہ لوگ ہیں جو اس عمل کو چونکہ، چنانچہ کی تاویل دے رہے ہیں۔ یقیناً اس معاشرے میں بہت سارے غلط رجحان پروان چڑھ گئے ہیں اور ان میں ایک رجحان یہ ہے کہ اپنی غلط فعل کی توجیہ و تاویل ہر حال میں پیش کی جاتی ہے۔

بحیثیت مسلمان مسجد نبوی کا رتبہ ہمارے لئے کیا ہے ہم سب باخوبی جانتے ہیں۔ جب اس مقدس زمین پر جاتے ہیں تو سب چیزوں سے بے خبر ہو کر اس وادی میں کھو جاتے ہیں کیونکہ یہ وادی، یہ ماحول روح کو پاکیزہ اور نفس کو طاہر بنانے کی جگہ ہے۔ جس جگہ جاکر ہمیں اپنے اعمال پر نظر دوڑانی تھی ہم نا جانے کس جانب نکل آئے اور دوسروں پر چڑھ دوڑے۔

میرا سوال مقدس زمین پر چور چور کے نعرے بلند کرنے والوں سے ہے کہ آپ کی پارٹی، یا آپ کے لیڈر یا آپ خود ہر غلطی سے مبرا ہے اور عقل کل ہے۔ ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جس کے خلاف آپ نعرے بلند کر رہے ہیں وہ زیادہ پاک ہے یا آپ کا لیڈر۔ ایک چہرہ انسان کا سامنے ہوتا ہے اور ایک چہرہ نظر نہیں آتا ممکن ہے جس کو آپ بہت پارسا سمجھ رہے ہو وہ ہی سب سے گندا نکل آئے۔ احتیاط کریں ورنہ پلٹ کر آ گیا تو منہ نہیں چھپا سکتے۔

اس فعل کی تاویل میں آپ ایک جگہ کہتے ہو کہ جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے، یعنی یہ عمل کل کو آپ کے لیڈر کے ساتھ ہو گا تو کیا اس کی بھی یہ ہی تاویل ہوگی؟ ایک جگہ آپ کہتے ہو کہ یہ مکافات عمل ہے یعنی یہ ہی کچھ کل آپ کے چیئرمین کے ساتھ ہو گا تو مکافات عمل کے زمرے میں آئے گا یا نہیں؟

پیارے مسلمانوں، میرے سادے سے ذہن میں آپ لوگوں کی ہزاروں تاویلیں نہیں آئی، بھلے وہ چور تھے یا غدار لیکن وہ مہمان تھے، کس کے مہمان تھے جس کا گھر تھا یعنی آپ لوگوں نے کسی کے مہمان کی توہین کی ہے، بال نوچے ہیں، گالی دی ہے۔ جس مقام پر آواز نیچی رکھنے، نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم ہے وہاں پر شخصیت پرستی اور دشمنی میں سیاسی نعرے بازی ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم ہے اس کی بھی تاویل ہو گی لیکن یہ تاویل بھی بے جان ہے، کب تک اس طرح کے کرتوت پر واہ واہ کریں گے۔

مختصر، یہ فعل نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ فعل ہو بھی گیا تو اس کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر ہو بھی گیا تو تاویل نہیں دینی چاہیے تھے اور اگر ہاں سب سے بڑھ کر لیڈر کی جانب سے مذمت ہونی چاہیے تھی۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو سب سے پہلے احترام مدینے سیکھنا ہو گا، پھر اس کے بات مدینے والے کی سنت پر چلتے ہوئے اچھی زبان استعمال کرنی ہوں گی ، پھر احترام انسانیت سیکھنا ہو گا، اپنی زبانوں سے نہیں اپنے کردار سے اپنی مسلمانیت دکھانی ہوگی۔

سب سے پہلے تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مقدس مقام پر گو نواز گو کا نعرہ لگے، زکٰوۃ چور کا نعرہ لگے یا پھر چور چور کا نعرہ لگے وہ درست نہیں ہے، اس بات پر بھی اتفاق کریں کہ یہ عمل نواز شریف کے خلاف ہو، عمران خان کے خلاف ہو یا پھر زرداری کے خلاف وہ قابل مذمت ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اسے ابھی نہیں روکا گیا تو پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا کیونکہ ہر کوئی دوسرے کی نظر میں خراب ہے، ہر سیاست دان دوسرے کی نظر میں بدکردار ہے یا پھر چور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments