پراجیکٹ عمران خان اور پاکستان میں پاپولسٹ فسطائیت


پرسوں مسجد نبوی میں نفرت انگیز ہلڑ بازی پر پاکستان اور دنیا بھر کے لوگوں کو سخت کرب اور درد سے گزرنا پڑا۔ ان میں اکثر لوگوں کے لئے یہ واقعہ ایک صدمے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اکثر لوگوں کے ذہنوں میں تکلیف دہ سوال اٹھا کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے؟

یہ سوال زیادہ تر ان لوگوں کے ذہنوں میں اٹھا جنہوں نے اب تک پراجیکٹ عمران خان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران اور پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست کا ایک عام سا معمول ہے جو آتا رہتا ہے۔

پراجیکٹ عمران خان کی تاریخ پر جائے بغیر یہ سمجھنا کافی ہے کہ پاکستان کا طاقتور اشرافیہ کو سیاست، جمہور، جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل سے ایک عرصے سے کراہت ہے۔ وہ اس کے لئے وہ ایک عرصے سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

تین دہائیاں پہلے ان کی اس منصوبہ بندی کے لئے ایک سیلیبرٹی میسر آ گیا۔ رفاہی کام، ورلڈ کپ اور انتہائی نرگسیت کے شکار اس سیلیبرٹی پر داؤ لگایا گیا۔ شہروں کے مڈل کلاس، اوورسیز اور ریٹائرڈ افسران کی بڑی تعداد کو بھرپور پروپیگنڈے سے اس کی طرف مائل کیا گیا۔

لاہور میں 2011 کے جلسے میں اس کو ”نیا پاکستان“ ، ”کرپشن سے پاک پاکستان“ ، اور ”تبدیلی“ کے نعروں سے لیس کیا گیا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے الیکٹ ایبلز کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کو ہیرو بنانے کے لئے بہت بڑی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس کو ایک مسیحا کے روپ پیش کیا گیا۔

تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو اس کے ذریعے چور اور ڈاکو کہا گیا اور مڈل کلاس کو یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان میں ترقی نہ ہونے کی اصل وجہ ”کرپشن“ ہے۔ سیاسی نظام کو غیر سیاسی بنانے کے لئے پراجیکٹ عمران خان کو نوجوانوں کے لئے ایک خوشنما خواب کے طور پر پیش کیا گیا۔

پھر 2013 کے انتخابی مہم کے دوران دوسری تمام سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو جو پراجیکٹ عمران خان کے ساتھ اختلاف رکھتے تھے ”ڈاکو“ ، ”غدار“ اور ”کافر“ قرار کروایا گیا۔ یہ باور کرایا گیا کہ جو پراجیکٹ عمران کے ساتھ ہے وہ محب وطن، نیک، پاک اور مسلمان ہے اور جو نہیں ہے وہ بکا ہوا ہے یا غدار ہے۔

پھر 2013 میں پراجیکٹ عمران کا پہلا تجربہ خیبر پختونخوا میں کیا گیا۔ اس دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ اس کا الفت بھر تعلق اب سب کو معلوم ہے۔ اگرچہ اس کی پارٹی پختونخوا میں مناسب حکومت کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہی تھی لیکن پھر بھی 2014 میں پراجیکٹ عمران کو ایک منتخب وزیر اعظم کا محاصرہ کرنے کے لئے سہولت کاری کی گئی۔

کنٹینر پر سب کو نظر آیا کہ عمران خان ایک خود پسند، پاپولسٹ اور فاشسٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جو صحافی تنقیدی تجزیہ کرتا اس کو لفافہ، جو رہنما اس کا ساتھ نہ دیتا اس کو چور اور غدار اور عام لوگ جو اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے وہ چوروں اور غداروں کے ہمنوا پکارے گئے۔ سب کی عزتیں سر عام اچھالی گئیں۔

سہولت کاری مگر برقرار رہی۔ یہاں تک کہ 2018 میں اس کے لئے آر ٹی ایس کو فیل کیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشنوں سے نکال کر گنتی کی گئی اور دن دیہاڑے بیلٹ باکسوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔ پھر بھی اکثریت نہیں ملی۔ دوسری جماعتوں کو دھکیل کر اس کے ساتھ شامل کر کے اس کی حکومت بنائی گئی۔

صرف تین سال میں ثابت ہوا کہ تمام مقبول پسند نعروں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ معیشت تباہ ہو گئی، گورننس بحران کی شکار ہو گئی، لا قانونیت، انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور پاکستان پوری دنیا میں تنہا رہ گیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا محال کر دیا۔

پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتیں جو روز اول سے پراجیکٹ عمران کی حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف تھیں جب دیکھا کہ اس کے سہولت کار کسی حد تک ”نیوٹرل“ ہو گئے ہیں تو انہوں نے آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کو حکومت سے ہٹا دیا۔

تخت سے اترتے ہی عمران خان نے چار نعرے ایجاد کیے ۔ ”امریکی سازش“ ، ”خوددار پاکستان“ ، ”غدار“ ، اور ”امر با المعروف“ ۔ روزانہ اپنے اندھے عقیدت مندوں کے ذہنوں میں پورے سماج، سیاست اور جمہوریت کے خلاف نفرت انگیز بھاشن دے رہا ہے۔ اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ٹرینڈ سوشل میڈیا کے ٹرولنگ بریگیڈ استعمال کر رہا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ پراجیکٹ عمران کے عمران خان نے تہذیب، ثقافت، اقدار، سیاست، جمہوریت، ریاست اور سماج کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہو۔ کوئی مجھے بتائے کہ ٹی ٹی پی اور عمران خان کی مہمات میں فرق کیا رہ گیا ہے؟

یہ ہے وہ پورا پس منظر جس میں مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر عمران خان کے اندھے مقلدین کی طرف سے وہ کربناک سانحہ پیش آیا۔ یاد رہے کہ فسطائیت کے خلاف فکری اور سیاسی مزاحمت کے لئے سول سماج، دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنان کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

ڈاکٹر خادم حسین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خادم حسین

(خادم حسین پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اور @khadimHussain 4 پر ٹویٹ کرتے ہیں۔ )

khadim-hussain has 9 posts and counting.See all posts by khadim-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments