پاکستانی سماج میں ”محنت کشوں“ کی سیاسی شناخت کا مسئلہ!


پاکستان میں محنت کشوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جو سرمایہ درانہ اور جاگیردارانہ اشرافیہ کی گرفت میں ہے جو پارلیمان میں ہی نہیں بلکہ بیورو کریسی میں بھی نمایاں پوزیشن رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں روزگار کی فراہمی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن محنت کشوں کے لیے کوئی جامع ”فریم ورک“ نہیں دیا جاتا حالانکہ ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے پر کشش نعرے بھی لگائے جاتے ہیں جو محنت کشوں کی عالمی تحریکوں میں لگائے جاتے رہے ہیں جیسا کہ ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ آج بھی پاکستانی سیاست کا سب سے زیادہ ”پاپولر نعرہ“ ہے۔

بہر کیف پاکستانی سیاسی قیادت میں محنت کشوں کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ یہاں ہر سیاسی جماعت میں ”لیبر ونگ“ پائے جاتے ہیں اور میرے نزدیک یہی سب سے بڑی وجہ ہے جو محنت کشوں کے استحصال کا خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستانی محنت کش اپنی طاقت اور حیثیت سیاسی جماعتوں کی لیبر ونگ کے ”استحصالی رویے“ میں ضم کر کے اپنی ”جداگانہ سیاسی شناخت“ کو گنوا بیٹھے ہیں جبکہ محنت کشوں نے تاریخ میں ایسی ایسی تحریکیں چلائی ہیں کی ہیں جس نے نہ صرف ”انقلاب“ برپا کیے بلکہ نئے سیاسی و معاشی نظریات بھی پیش کیے۔ لہذا پاکستانی سماج میں محنت کشوں کا استحصال اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک پاکستانی محنت کش سیاسی اعتبار سے اپنی ”جداگانہ سیاسی شناخت“ کو تسلیم نہیں کرواتے اور اس کے لیے پاکستانی محنت کشوں کو ایک ہونا ہو گا اور ایک آواز کے ساتھ اپنے حق کی لڑائی لڑنا ہوگی اور یہی ”یوم مزدور“ کا بنیادی تقاضا ہے۔

آج یکم مئی ہے، دنیا بھر میں آج کا دن محنت کشوں کی مناسبت سے منایا جاتا ہے اور شکاگو کے ان محنت کشوں کو سرخ سلام پیش کیا جاتا ہے جن کی عظیم قربانیوں سے دنیا بھر کے مزدوروں کو ”غلامی“ سے نجات حاصل ہوئی جس میں وہ صدیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔ امریکی شہر شکاگو کے محنت کشوں کی عظیم جد و جہد کے نتیجے میں ہی ”اوقات کار اور ہفتہ وار تعطیل“ کا حق مزدوروں کو حاصل ہوا۔ اس سے پہلے ”کام“ یعنی ڈیوٹی کے ختم ہونے کا کوئی حتمی وقت معین نہیں تھا جبکہ ہفتہ وار تعطیل کا تصور تو سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔

محنت کشوں پر ہونے والے مظالم پر کسی شعبہ ہائے زندگی سے کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی، اگر کوئی اٹھائی بھی گئی ہوگی تو اسے کسی سماج میں پذیرائی نہیں دی گئی کیونکہ پوری دنیا سرمایہ درانہ نظام کی گرفت میں تھی، جہاں اشرافیہ مالک و مختار اور مزدور کو غلام کی حیثیت حاصل تھی۔ اسی کشمکش میں کشمکش میں ایک دن وہ بھی آیا جب سرمایہ داروں کی ”ظالمانہ رویے“ کے خلاف محنت کشوں نے احتجاج شروع کر دیا اور 1886 میں یکم مئی کے روز اپنے حقوق کے لیے محنت کشوں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا جو کہ تین مئی کو کی گئی لیکن محنت کشوں کی اس پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے ارباب اختیار بالخصوص سرمایہ داروں کی طرف سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے لیکن ایسا کرنے سے بھی انھیں کامیابی نہیں ملی تو پولیس کے ذریعے ایک فیکٹری میں سیدھی فائرنگ کر وادی گئی جس کے نتیجے میں تقریباً سات مزدور جان سے چلے گئے، چار مئی کو مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے ”شکاگو“ میں ایک ریلی نکالی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مزدور کے کام کے اوقات 8 گھنٹے کیے جائیں۔

اس ریلی پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہر طرف خون خون بہنے لگا یہاں تک کہ زمین بھی مزدوروں کے خون سے سرخ پڑ گئی۔ ایسے میں ایک محنت کش نے اپنی خون آلودہ قمیض ہوا میں لہرائی اور اس طرح ”سرخ رنگ“ محنت کشوں کا علامت بن گیا۔ اس عظیم سانحے کے بعد محنت کشوں پر مقدمے چلائے گئے اور انھیں پھانسیوں پر چڑھایا گیا جبکہ بہت سوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

پھانسی چڑھنے والے محنت کشوں نے دنیا بھر کے محنت کشوں اور آنے والی نسلوں کو پیغام دیا کہ ”غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ، بصورت دیگر ان کی تلواریں بلند ہوں گی، ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے اپنی جان پیش کر رہے ہیں۔ ان عظیم محنت کشوں کی“ عظیم قربانیوں ”کا ہی یہ صلہ ہے کہ دنیا بھر کے مزدوروں کو یہ حقوق حاصل ہوئے جن میں 8 گھنٹے کام، ہفتہ وار تعطیل، ٹریڈ یونین کا قیام، ملازمت کا تحفظ، لیبر کورٹ، خواتین کو میٹرنٹی تعطیلات کا جیسے حقوق نمایاں ہیں۔ یاد رہے کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں پہلی مرتبہ یکم مئی منایا گیا تھا اور یہ روایت آج تک چلی آ رہی ہے اور دنیا بھر کے محنت کش شکاگو کے محنت کشوں کی عظیم قربانیوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اب آئیے دیکھتے ہیں پاکستان میں محنت کشوں کی کیا صورتحال ہے جبکہ خبریں یہی آتی رہیں ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی پاکستان میں مزدوروں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں بلکہ یہاں محنت کشوں کا استحصال عام سی بات ہے۔ سب سے پہلے تو زرعی شعبے کو لیجیے جو ملک کی 70 فیصد آبادی کو بلاواسطہ اور بالواسطہ روزگار فراہم کرتا ہے لیکن اس شعبے کے مزدوروں کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بھی ادارہ موجود نہیں ہے، غالباً اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی قیادت اور پارلیمان میں زمینداروں اور جاگیرداروں کا غیر معمولی کردار ہے جو اس حوالے سے قانون سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

1973 ء کے آئین میں محنت کشوں کو حقوق دیے گئے ہیں جن میں آئین کے آرٹیکل 11 کے تحت غلامانہ، جبری اور بچوں سے محنت کی ممانعت کی گئی ہے اور آئین کے آرٹیکل 17 میں محنت کشوں کو یونینز بنانے کا حق دیا گیا ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل 18 ہر ایک فرد کو کسی بھی شعبے میں خدمات، تجارت اور کاروبار وغیرہ کو اختیار کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 37 (ای) مزدوروں کے لیے فرائض کی ادائیگی کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے اور خواتین کو میٹرنٹی کے دوران چھٹی کو یقینی بناتا ہے۔

بلاشبہ ریاستی آئین میں محنت کشوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا محنت کشوں کو ان کے حقوق آئینی تقاضوں کے مطابق میسر ہیں یا نہیں۔ یقیناً اس سوال کے جواب میں نفی میں سر ہلایا جائے گا یا پھر زیادہ سے زیادہ کندھے اچکائے جائیں گے اور کان کھجائے جائیں گے۔ اس ضمن میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ آرڈیننس 1968، پاکستان میں فیکٹری ایکٹ 1934، پراونشل سوشل سیکیورٹی آرڈینینس 1965، اور پے منٹ ویجز ایکٹ 1936 کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو یقیناً وقت کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ ہوتے رہے ہیں لیکن اس میں اصلاحات کی اب بھی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے جب تک ان قوانین میں اصلاحات نہیں ہوں گی اور سامراجی قوانین کا خاتمہ نہیں ہو گا تو اس وقت تک پاکستان میں محنت کشوں کا استحصال ہوتا رہے گا جس میں دیہاڑی دار مزدور، بھٹہ مزدور، زرعی مزدور (کسان) اور گھروں میں کام کرنے والے غیر رجسٹرڈ مزدور نمایاں ہیں جبکہ چائلڈ لیبر کی کالک تو آج بھی ہمارے ماتھے پر ملی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments