ترکوں کی پاکستان سے محبت کو نظر لگانے والے منحوس


ہمارے شہر میں ترکش ڈونر کباب کی شاپ کھلی تو میں اکثر وہاں ڈونر لینے جاتا۔ ڈونر بنانے والی یلدیز بہت اخلاق والی تھی۔ ایک دن میں نے یوں ہی کہہ دیا کہ مجھے ترکش چائے بہت پسند ہے کیا تم لوگ ترکش چائے نہیں بناتے۔ وہ فوراً بولی اچھا مجھے بس پانچ منٹ دو میں ابھی بنا کر لاتی ہوں۔ چائے پینے کے بعد میں نے بل ادا کرنے کے لئے پرس نکالا۔ وہ بولی نہ نہ ہم چائے یہاں بیچتے نہیں بس تم نے کہا تو میں نے بنا دی آئندہ بھی کبھی بھی چائے پینے کا موڈ ہو تو کہہ دنیا میں بنا دوں گی لیکن اس کے ہم پیسے نہیں لیں گے۔

استنبول کا نام ذہن میں آتے ہی مجھے ہمیشہ ہی عجیب روحانی مسرت محسوس ہوتی تھی اور اسے دیکھنے کی خواہش تلملاتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو اس کی تاریخی حیثیت ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا تو کبھی یہ شہر سلطنت روما کا بھی مرکز تھا اور اسی قسطنطنیہ کو فتح کرنے پر جنت کی بشارت ہمارے نبی محترم ﷺ نے کئی سو سال پہلے دے دی تھی۔ اس کے علاوہ اہم وجہ یلدیز جیسے ترکی شہریوں کا اخلاق تھا۔ میری جاب کے دوران میرے بہت سے کلائنٹ ترکش شہری تھے۔

میں نے نوٹ کیا کہ جتنا احترام اور جتنی چاہت ترکی کے لوگ ہم پاکستانیوں کو دیتے ہیں وہ حیران کن ہے میرا جب بھی کبھی ان کے گھر جانا ہوا۔ یا کبھی کسی سے سر راہ ملا ان کے بچے سے لے کر اسی سال کی بوڑھی مائی تک وہ ایسے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے ان کا اپنا کوئی رشتہ دار آ گیا ہو۔ پاکستان کا نام سنتے ہی ان کے چہرے پر جو خوشی جو مسرت لپک آتی ہے میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ ترکی میں موجود لوگوں کے چہروں پربھی آتی ہے یا نہیں

استنبول پہنچتے ہی میں نے نوٹ کیا کہ ٹیکسی والے سے لے کر دکاندار تک اور ہوٹل مینجر سے لے کر وہاں ٹھہرے ہر ترکی مہمان تک پاکستان کا لفظ سنتے ہی جو مسکراہٹ اور جو احترام اور جو محبت آجاتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ عمران خان نواز شریف مشرف ان کے نام ان سب کو از بر تھے کچھ لوگوں نے تو روک کر پوچھا پاکستان میں یہ جو سیاسی بحران آیا ہوا ہے اس کا کیا بنے گا؟ استنبول میں شام کو چھوٹے کروز شپ میں ڈنر اینڈ میوزک کا پروگرام ہوتا ہے۔

جس میں وہ سیاحوں کو سمندر کے اندر لے جاتے ہیں اور ڈنر کے ساتھ انٹرٹینمنٹ کا پروگرام کرتے ہیں۔ جب ہم اس کروز شپ میں داخل ہوئے تو انہوں نے ہمارے ٹیبل پر پاکستان کا پرچم لا کر رکھ دیا پھر کیا تھا ساتھ ہی انہوں نے وائیٹل سائینز کا مشہور گانا دل دل پاکستان چلا دیا۔ اب کیا تھا سارا شپ ہمیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ہم کوئی شاہی مہمان ہیں

وہاں کام کرنے والے ویٹر سے لے کر سنگر تک اور شیف سے لے کر فوٹوگرافر تک ہر ایک کی توجہ کے مرکز ہم ہی تھے اس دن پاکستانی ہونے پر فخر ہو رہا تھا مائیک پر بار بار اعلان ہوتا کہ ہم اپنے پاکستانی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں حالانکہ اسی شپ میں لبنانی بھی تھی اور فلسطینی بھی مراکشی بھی تھے اور کینیڈین بھی امریکی بھی تھی اور عراقی بھی لیکن سب کو بس ایک ہی خوشی تھی کہ ایک ٹیبل پاکستان کاہے جس پر سبز ہلالی فلیگ رکھا ہوا ہے۔

موسیقار گاتے ہوئے ہمارے ٹیبل پر آتا، اور شعر کی صورت میں پاکستان کا نام لے کر ویلکم کہتا۔ اس کے بعد رقص کرنے والا صوفی ہو یا ڈھول پیٹنے والا، باجا بجانے والا ہو یا مہمانوں کی تصویریں کھینچنے ولا فوٹو گرافر ہمارے ٹیبل کے ارد گرد یوں توجہ دیتے جیسے آج اس شپ کے مہمان خصوصی ہم ہی ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے قارئین کو مشورہ دوں گا کہ ترکی کا چکر ضرور لگائیں پاکستان سے باہر پاکستانیوں کو اتنی محبت شاید ہی کوئی اور قوم دیتی ہو

لیکن اتنی محبت مل رہی ہوتو دل ڈر جاتا ہوں کہ کہیں اس چاہت کو نظر نہ لگ جائے۔ میرا بھی دل کھٹکا کہ کہیں اس رشتے کو نظر نہ لگ جائے۔ پھر میں واپس آ گیا۔ ان دنوں جو اخبارات کے فیچر پڑھ رہا ہوں تو اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمارے رشتے کو نظر لگ گئی ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ اب ترکی ہمارے خلاف ہو گئے ہیں وہاں پاکستانی پرورٹس اور پاکستانی گیٹ آؤٹ کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اب ترکی والے پاکستانیوں کا نام بھی سننا نہیں چاہ رہے گزشتہ دنوں یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ ترکی پاکستانیوں کے ویزے بھی بند کر نے والا ہے جس کی بعد میں تردید آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترکی والے اب پاکستانیوں کو وہ عزت دینے کو تیار نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ نظر اتنی منحوس نہیں ہوتی جتنا کسی رشتے کو نظر لگانے والے منحوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ نظر لگانے والا پوری تیاری سے نظر لگاتا ہے۔ نشانہ باندھ کر نظر لگا تا ہے نظر لگنے والی کی نحوست رشتوں کو توڑ دیتی ہے اور محبتوں کو ختم کر دیتی ہے

اس دفعہ یہ نظر لگانے والے اور کوئی نہیں بلکہ اپنی ہی ہم وطن پاکستانی نوجوان ہیں۔ جو یا تو تعلیم کے سلسلے میں ترکی آئے ہیں یا پھر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانی ہیں۔ یہ منحوس پاکستانی ٹک ٹاکر ہیں جنہوں نے اپنے منحوس عمل سے اپنے گندے کردار سے اس رشتے کو نظر لگائی ہے اپنی سوچ اور اپنے افکار سے نظر لگائی ہے۔ ترسے ہوئے بھوکے بھیڑیے جن کی شیطانی نظروں سے پاکستان میں کوئی عورت کسی پارک، کسی سڑک کسی تعلیمی ادارے کسی دفتر میں محفوظ نہیں تھی اب یہ اپنا گند تخیل اٹھا کر ترکی لے آئے ہیں اور کسی شہوانے ریچھ کی طرح بھاگ بھاگ کر خواتین کا پیچھا کرتے اور ان کی ٹک ٹاک ویڈیو بناتے اور ان کی بغیر اجازت گندے کیپشن کے ساتھ شیئر کرتے ہیں

یہ وہی ہیں جو ارطغرل ڈرامے سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہاں کی ہر خاتون حلیمہ سلطان کے لباس میں ہوگی لیکن جب وہ ترکش لڑکیوں کو جینز اور سکرٹس میں دیکھتے ہیں تو انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب ان خواتین کی تصاویر بنانا، ان کا پیچھا کرنا اور ان کی ٹک ٹاک بنا کر گھٹیا اور لچر کیپشن کے شیئر کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جس عورت کا لباس ان کے بنائے ہوئے معیار کے مطابق ٹھیک نہیں ہے اس کا کردار ٹھیک نہیں ہو گا اور انہیں یہ استحقاق مل گیا ہے کہ وہ انہیں چھیڑ سکتے ہیں۔ کاش کوئی سبق ایسا بھی ہمارے نصاب میں شامل کیا جائے کہ ہمارے ملک کے باہر بھی ایک دنیا ہے اور وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج بود و باش اور لباس ہم سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ان چیزوں کا مختلف ہونا ان کے کردار کی پستی نہیں بلکہ ہماری سوچ کی پستی ہو سکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments