سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، آغا شورش کاشمیریؒ اور شیخ رشید احمد


میں کالم لکھنے سے قبل اس بات کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں میرا مجلس احرار اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میں نے مجلس احرار اسلام کی وکالت کے لئے یہ سطور لکھ رہا ہوں ہم سب میں محترم ”الم نگار“ جو شاید قلمی نام ہے، نے سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی ان کے خوشامدانہ خطاب پر ان کی کلاس لینی تھی لیکن ان کے قلم کی زد میں پاکستان کی دو عظیم ہستیاں بھی آئیں جب میں سے ایک ہستی سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ اور دوسری آغا شورش کاشمیری ہیں۔

دونوں شخصیات کا میدان خطابت میں کوئی ثانی نہیں خوش الحانی پر جائیں تو جب امیر شریعت قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو پرندے پرواز ترک کر کے ان کی تلاوت سنتے۔ وہ عشا ء کی نماز کے بعد تقریر شروع کرتے تو صبح کی اذانوں تک لوگ ان کا خطاب سننے میں محو رہتے۔ یہ بات درست ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی۔ یہی ان کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ ہے لیکن لوگ دانستہ ان کے قیام پاکستان کے بعد کے کردار کو فراموش کر دیتے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے انہیں مسلم لیگ کے مقابلے میں شکست ہوئی اور وہ کئی مواقع پر اس کا برملا اعتراف بھی کرتے رہے۔ میرے سامنے ان کی سیاسی حیثیت نہیں مذہبی حیثیت ہے جو پوری عمر دشمنان خاتم النبیین ﷺ سے لڑتے رہے۔ ان کی وفات کے 13 سال بعد عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔

یہی کردار آغا شورش کاشمیری کا ہے۔ وہ کوئی معمولی صحافی و خطیب نہ تھے۔ ایسا شعلہ بیان مقرر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے جس کی تقریر لوگوں کے دلوں میں عشق رسول ﷺ میں موجزن کر دیتی تھی۔

لہذا یہ ہستیاں کسی طور پر شیخ رشید احمد جو ”ٹلے مارنے“ کی شہرت رکھتے ہیں، کے ساتھ رگیدی نہیں جانی چاہئیں۔ ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جو ان کی طرف انگلیاں اٹھنے پر جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے میری زمانہ طالب علمی سے دوستی ہے جو کم و بیش نصف صدی پر مشتمل ہے۔ ان کی موقع پرستی، طوطا چشمی اور بد تہذیبی کی وجہ سے 2003 ء سے ہمارے درمیان تعلقات ختم ہو چکے ہیں۔ سلام دعا بھی ختم ہو گئی ہے۔

اس لئے میری تحریر کو ان کی صفائی پیش کرنے کا مقدمہ نہ سمجھا جائے۔ زمانۂ طالبعلمی میں ہم دونوں نے نامور خطیب، ادیب، شاعر و صحافی آغا شورش کاشمیریؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ شیخ رشید احمد نے سیاست کی وادی میں قدم رکھا جب کہ میں نے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ میں نے ”ہم سب“ میں ”الم نگار“ کے قلم سے شیخ رشید احمد کی مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر کے حوالے سے تقریر پر تنقید دیکھی جس میں انہوں نے مینار پاکستان لاہور کے سائے میں تحریک انصاف کے جلسہ کی روداد بیان کی ہے۔

انہوں نے جلسہ کے دوران بار بار ہونے والے اس اعلان کا بھی ذکر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ ”لاہور میں اسی پارک میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا تھا جس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی تھی اور پوری قوم نے پاکستان کے قیام کے لئے جد و جہد کا آغاز کیا تھا اور اب اسی شہر اور اسی پارک میں تحریک انصاف پاکستان کو بچانے اور حقیقی آزادی دلانے کے لئے جد و جہد کا اعلان کرے گی“ ۔

الم نگار کے ساتھ انتہائی احترام کے ساتھ عرض کروں کہ ان کا موضوع شیخ رشید احمد کی تقریر تھی جس میں انہوں نے اہالیان لاہور کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”لاہور نے عمران خان صاحب جیسا مرد مجاہد پیدا کیا ہے۔ پھر انہوں نے شہر لاہور سے کچھ اس طرح رشتہ جوڑا کہ لاہور ان کا پسندیدہ شہر ہے۔ ان کے مرشد کا شہر، آغا شورش شورش کاشمیری کا شہر اور عطاء اللہ شاہ بخاری کا شہر ہے۔ گویا جلسہ قرارداد لاہور اور نظریہ پاکستان کی تکمیل کے لئے ہو رہا تھا“ جب کہ شیخ رشید احمد نے اپنی تقریر کی تان عطاء اللہ شاہ بخاری کا مرید ہونے پر توڑی۔

دراصل ”الم نگار“ صاحب شیخ رشید احمد کو ان کی تقریر کے حوالے سے اپنی تنقید کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے قیام پاکستان سے قبل مجلس احرار اسلام کے کردار کو پیش نظر رکھ کر شیخ رشید احمد کے ”مرشد ین“ کے کردار پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ میں اس بات کی بھی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ شیخ رشید احمد اور میرا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رہا ہے۔ دونوں کا دور دور تک مجلس احرار سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مجلس احرار اسلام کے سیاسی ایجنڈے کی تائید کی ہے۔

تاہم مجلس احرار اسلام کے قائدین سے ان کے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کردار نے ان کے لئے ہمارے دل میں والہانہ محبت و احترام کا رشتہ پیدا کیا ہے۔ لاہور کبھی سید عطا اللہ بخاری کا شہر نہیں رہا ان کی ولادت 23 ستمبر 1892 ء کو کوچہ لنگر، محلہ خانہ باغ، پٹنہ، عظیم آباد بہار، ہندوستان میں ہوئی تھی۔ انہوں نے لاہور کو کبھی اپنا مستقل مسکن نہیں بنایا ان کی وفات 22 اگست 1961 ء کو ملتان میں ہوئی ان کی تدفین جلال باقری قبرستان ملتان میں ہوئی اسی طرح آغا شورش کاشمیریؒ کے آبا و اجداد کا تعلق امرتسر سے ہے۔ ان کی پیدائش لاہور میں ضرور ہوئی اور میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے

سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کا عہد 1961 اور آغا شورش کاشمیریؒ کا دور 25 اکتوبر 1975 ء کو ختم ہوا۔ ان دونوں شخصیات کے قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد کے کردار کو پیش نظر رکھ کر ہی ان کے سیاسی کر دار کا جائزہ لینا چاہیے پھر ان کی شخصیت بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ شیخ رشید احمد کے کبھی سیاسی مرشد نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی 50 سالہ سیاسی زندگی میں کئی سیاسی مرشد تبدیل کیے۔ آج کی تاریخ تک سیاسی ضرورتوں کے مطابق عمران خان ہی ان کے سیاسی مرشد ہیں۔

وہ اصغر خان، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف نہ جانے کس کس کو اپنا مرشد بناتے رہے ہیں۔ کل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا وہ کس کو اپنا مرشد بنا لیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ کو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ ہونے کی وجہ سے دینی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج بھی جب ملک میں فتنہ قادیانیت سر اٹھاتا ہے تو ان دو شخصیات کو بڑی شدت سے یاد کیا جاتا ہے۔

مولانا تاج محمود اور نوابزادہ نصر اللہ خان کا تعلق بھی مجلس احرار سے رہا ہے لیکن ان سب کی وجہ شہرت شعلہ بیانی تھی۔ بلا شبہ مجلس احرار اسلام نے سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، آغا شورش کاشمیری، مولانا تاج محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان سمیت بڑے خطیب پیدا کیے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسے خطیب صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ اپنی تقاریر میں اکثر کہا کرتے تھے۔ ”میں ان سؤروں کا ریوڑ بھی چرانے کو تیار ہوں جو برطانوی سامراج کی کھیتی کو ویران کردے۔ میں کچھ نہیں چاہتا ایک فقیر ہوں اپنے نانا ﷺ کی سنت پر مر مٹنا چاہتا ہوں اور کچھ چاہتا ہوں تو صرف اس ملک سے انگریز کا انخلا دو ہی خواہشیں میری زندگی میں یہ ملک آزاد ہو جائے یا پھر میں تختہ دار پر لٹکا دیا جاؤں“ ۔

امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں 29 دسمبر 1929 کو مجلس احرار اسلام کے نام سے سیاسی جماعت قائم ہوئی تھی۔ مولانا حبیب الرحمنٰ لدھیانوی، چوہدری افضل حق، شیخ حسام الدین، غازی عبد الرحمنٰ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا مظہر علی اظہر کا شمار مجلس احرار کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

الم نگار نے 27 مارچ 1946 کو لاہور میں ہی مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس کا حوالہ دیا جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ایک قرارداد پیش کی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا۔ ”جہاں تک مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کا تعلق ہے۔ مجلس عاملہ کسی صورت میں بھی اس سے اتفاق نہیں کر سکتی۔ ہم تقسیم ہند کے نظریہ کا تجزیہ محض اقتصادی اور معاشرتی اصولوں پر نہیں کرتے۔ پاکستان کے قبول کرنے کا مطلب ملت اسلامیہ ہندیہ کو تین حصوں میں منتشر کرنا ہو گا۔“

اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مجلس احرار اسلام تحریک آزادی میں مسلم لیگ کی سوچ سے دور اور کانگریس کے بہت قریب تھی۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے الگ خطہ ارضی کا مطالبہ کر رہی تھی جب کہ مجلس احرار اسلام متحدہ ہندوستان کی آزادی کی حامی تھی۔ جب پاکستان قائم ہو گیا تو موچی دروازے میں جلسہ سے تقریر کرتے ہوئے سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے کہا تھا کہ ”بھئی ہم نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ اب یہ بن گیا ہے۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اب ہم اس کا ساتھ دیں گے۔“

روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی نے ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ سید عطا اللہ شاہ بخاری میں اتنی اخلاقی جرات ہے۔ انہوں نے اپنی قیام پاکستان کی مخالفت کا اعتراف کیا اور اب اس کا ساتھ دینے کا بھی اعلان کیا۔

سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے 24 دسمبر 1947 ء کو ماسٹر تاج الدین انصاری کے نام خط میں لکھا ”مسلم لیگ سے ہماری سیاسی کشمکش ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ قوت حاکمہ ہے۔ مسلمانوں نے اسے بنایا اور قبول کر لیا ہے۔ میری آخری رائے اب یہی ہے کہ ہر مسلمان کو پاکستان کی فلاح و بہبود کی راہیں سوچنی چاہیں اور اس کے لئے عملی اقدام اٹھانا چاہیے اگر دوستوں کو یہ باتیں معقول و مدلل نظر آئیں تو ان بنیادوں پر آئندہ زندگی کی عمارت استوار کریں۔“

روز نامہ آزاد لاہور 14 نومبر 1949 ء کے صفحہ اول پر سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کا بیان شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا ”تقسیم سے قبل ایک مسئلہ پر میں نے مسلم لیگ سے دیانت دارانہ اختلاف کیا صرف ایک سیاسی مسئلہ کا اختلاف تھا۔ رائے کی ٹکر تھی۔ برادری کے دو بھائیوں کے درمیان ایک سوال پر بحث تھی۔ قوم نے فیصلہ کر دیا اور جس دیانت داری سے ہم نے اختلاف کیا تھا۔ اسی دیانت داری سے ہم نے برادری کے فیصلہ کو کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب یہ میرا ملک ہے۔ میں اس کا وفادار شہری ہوں جنہوں نے جانا تھا۔ وہ جا چکے ہیں۔ میں یہاں ہوں اور یہیں رہوں گا۔ یہاں تو میری جنگ کا اختتام ہے اور وہاں جاؤں تو ابھی میری جنگ کا آغاز ہو گا۔“

30 اپریل 1951 ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ منعقدہ زیر صدارت میاں ممتاز دولتانہ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے کہا کہ ”تقسیم ہند پر مسلم لیگ اور احرار کا اختلاف تھا لیکن یہ اختلاف دلوں کا نہیں دماغوں کا تھا۔ قوم نے مسلم لیگ کا راستہ قبول کیا اور دوسرا مسترد کر دیا ہم نے قوم کا فیصلہ قبول کر لیا“

انہوں نے 1948 ء میں کہا کہ ”اب پاکستان بن چکا ہے۔ یہ ہمارا وطن ہے۔ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں“ ۔ روزنامہ زمیندار میں 21 جولائی 1952 کے شمارہ کے صفحہ اول پر ان بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ”ہم نے دس لاکھ مسلمانوں کا خون دے کر اور ایک کروڑ مسلمانوں کو بے گھر کر کے ایک آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ اس کی آزادی ہر چیز پر مقدم ہے۔ پاکستان مجھے ہر چیز پر عزیز تر ہے۔“

الم نگار نے شیخ رشید احمد کے دوسرے مرشد آغا شورش کاشمیری کے نظریات پر بھی قلم اٹھا یا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ ”عمومی طور پر پاکستان میں آغا شورش کاشمیری کو ایک صحافی شاعر اور رسالہ ’چٹان‘ کے مدیر کے طور پر جانا جاتا ہے“ ۔ شاید وہ جان بوجھ کر آغا صاحب کا اس طرح ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ آغا شورش کاشمیری کا شمار ملک کے بلند پایہ خطیبوں میں ہوتا تھا۔ ان کا ہفت روزہ پاکستان مقبول ترین جریدہ تھا۔ اس دور میں ایک لاکھ سے زائد اشاعت تھی۔ لوگ ریلوے سٹیشنوں پر سٹالوں پر ہفت روزہ چٹان کا انتظار کرتے تھے۔

جس زمانے ان سے قیام پاکستان کی مخالفت کی غلطی ہوئی اس وقت ان کی عمر ہی کیا تھی۔ جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے حمید نظامی اور مجید نظامی مرحوم کے ساتھ لاہور میں نظریہ پاکستان کا مضبوط قلعہ بنایا ہے اور عمر بھر پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کی۔

شیخ رشید احمد کے مذہبی مرشد سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ہی ہیں۔ عمران خان ان کے سیاسی مرشد ہیں جن کے وہ آج کل گیت گا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کو رگڑا دے سکتے ہیں لیکن خدا را ان ہستیوں کی عزت و توقیر میں کمی نہ آنے دیں جنہوں پاکستان کو ”عجمی اسرائیل“ نہیں بننے دیا میرا خیال ہے۔ یہ بحث یہیں ختم ہو جائے تو بہتر ہے ورنہ اس موضوع پر ہمارے پاس بھی لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

اسی بارے میں: لاہور کا جلسہ اور کچھ تعارف شیخ رشید صاحب کے مرشد کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments