لاہور کا جلسہ اور کچھ تعارف شیخ رشید صاحب کے مرشد کا


کل لاہور میں تحریک انصاف کا جلسہ ہوا۔ اس سے قبل اور اس جلسہ کے دوران بار بار یہ اعلان کیا گیا کہ لاہور میں اسی پارک میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا تھا، جس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی تھی اور پوری قوم نے پاکستان کے قیام کے لئے جد و جہد کا آغاز کیا تھا اور اب اسی شہر اور اسی پارک میں تحریک انصاف پاکستان کو بچانے اور حقیقی آزادی دلانے کے لئے جد و جہد کا اعلان کرے گی۔ اس وجہ سے پورے پاکستان کی توجہ اس جلسہ پر اور اس میں ہونے والی تقاریر پر مرکوز تھی۔ کسی جلسہ کی اہمیت صرف اس معیار سے نہیں ماپی جاتی کہ اس میں کتنے لوگ شامل ہوئے اور کتنے جوش سے نعرے بازی کی گئی۔ یا کتنا ہلہ گلا ہوا۔ ہر ذی شعور اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے آخر اس جلسہ کی تقاریر میں کیا موقف پیش کیا گیا اور مستقبل میں اس کے کیا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں؟

اس کالم میں شیخ رشید صاحب کی نہایت مختصر تقریر پر تبصرہ کیا جائے گا۔ شیخ رشید صاحب نے تقریر کے شروع میں ہی لاہور اور اہالیان لاہور کی جرات کو سلام پیش کیا، پھر لاہور کی عظمت کو سلام پیش کیا، پھر لاہور کی بہادری کو سلام پیش کیا اور پھر لاہور کو اس لئے سلام پیش کیا کہ وہاں پر عمران خان صاحب جیسا مرد مجاہد پیدا ہوا۔ پھر انہوں اعلان کیا کہ لاہور ان کا پسندیدہ شہر ہے۔ اور ان کے مرشد کا شہر ہے، شورش [شورش کاشمیری صاحب ] کا شہر ہے اور عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا شہر ہے۔ گویا جلسہ شروع اس لیے ہوا تھا تا کہ قرارداد لاہور اور نظریہ پاکستان کی تکمیل ہو اور شیخ رشید صاحب نے تان یہاں پر توڑی کہ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے مرید ہونے کا اعلان کیا۔

یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد قائد اعظم پاکستان کے لئے دن رات جد و جہد کر رہے تھے تو شیخ رشید صاحب کے مرشد عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کیا کر رہے تھے؟ کیا وہ اس جد و جہد میں قائد اعظم کی حمایت میں اپنی شعلہ بیانی کا جادو جگا رہے تھے، سر دھڑ کی بازی لگانے کا اعلان کر رہے تھے یا حقیقت کچھ اور تھی۔ اگر ہم شیخ رشید صاحب کے مرشد کے خیالات دریافت کر لیں تو مرید کے ارادوں کو بھانپنا آسان ہو گا۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب مجلس احرار کے قائد اور بانی تھے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس تجزیہ میں صرف مجلس احرار کے لٹریچر سے حوالے پیش کیے جائیں تا کہ پڑھنے والے عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کے اپنے الفاظ میں ان کے نظریات کو جان سکیں۔

جب مسلم لیگ نے ایک علیحدہ ملک کے لئے قرارداد منظور کی تو عطا اءللہ شاہ بخاری صاحب نے جلسوں میں انہیں یہ یقین دلانا شروع کیا کہ یہ علیحدہ ملک کفر کے اصولوں پر بنے گا۔ انہوں نے یہ اعلان کیا

”اس کے علاوہ اگر آپ نے کوئی زمین حاصل کر بھی لی تو جو نظام آپ قائم کریں گے وہ انسانوں کا بنا ہوا ہو گا جس کی ہر شق کفر کے آئین سے ماخذ ہو گی۔“

جب آزادی کے دن قریب آ رہے تھے تو 27 مارچ 1946 کو اسی لاہور میں مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ایک قرارداد پیش کی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا

”جہاں تک مسلم لیگ کے نظریہ پاکستان کا تعلق ہے مجلس عاملہ کسی صورت میں بھی اس سے اتفاق نہیں کر سکتی۔ ہم تقسیم ہند کے نظریہ کا تجزیہ محض اقتصادی اور معاشرتی اصولوں پر نہیں کرتے۔ پاکستان کے قبول کرنے کا مطلب ملت اسلامیہ ہندیہ کو تین حصوں میں منتشر کرنا ہو گا۔“

عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے صرف نظریہ پاکستان کے اصولی مخالفت پر اکتفا نہیں کی تھی بلکہ قائد اعظم پر سکھوں کے ساتھ ساز باز کر کے مسلمان اکثریت کا علاقہ سکھوں کو دینے کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس قرارداد میں بخاری صاحب نے یہ الزام لگایا

”مزید برآں اب مسٹر جناح نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے نظریہ کو اپنا لیا ہے اور سکھوں کی علیحدہ سلطنت بنانے کا حق تسلیم کر کے پنجاب میں جمنا سے لے کر راوی بلکہ چناب تک کا علاقہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا درست قرار دے دیا ہے۔“

یہ الزام تراشی صرف قائد اعظم تک محدود نہیں رہی۔ اسی قرارداد میں بخاری صاحب نے ان الفاظ میں مسلم لیگ کی قیادت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی۔

” مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کو ایک غیر منظم اور بے ہنگام گروہ کی حیثیت دینا چاہتی ہے۔ لہذا یہ اجلاس ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت قطعی غیر اسلامی ہے۔ اس کا عمل آج تک ملت اسلامیہ کے مفاد کے منافی رہا ہے۔ مرکزی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی قوانین کی مخالفت اس کا مستقل شعار ہے۔ اس لئے مسلمان سیاسی مذہبی تمدنی راہنمائی کی توقع مسلم لیگ کی غیر اسلامی قیادت سے نہیں کر سکتے اور مسلم لیگ کے کسی فیصلہ کو اسلامی ہند کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔“

آپ نے عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب یعنی شیخ رشید صاحب کے مرشد کے خیالات ملاحظہ فرمائے۔ کیا یہ پاکستان کی حمایت ہے یا مخالفت؟ لاہور میں مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے فارغ ہو کر عطا ء اللہ بخاری صاحب دہلی چلے گئے اور وہاں پر ایک جلسہ سے خطاب کیا۔ اس جلسہ میں کچھ دیر کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو بھی آئے۔ اس جلسہ میں بخاری صاحب نے پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کو ان الفاظ سے نوازا:

”تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بنیادی تضاد ہے۔ اگر کوئی مجھے اس بات کا یقین دلا دے کہ کل کو ہندوستان کے کسی قصبہ کی کسی گلی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونے والا ہے تو میں آج ہی اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ قد پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے جن کا اٹھنا بیٹھنا، جن کا سونا جاگنا، جن کی وضع قطع، رہن سہن، بول چال، زبان لباس، غرض کوئی چیز اسلام کے مطابق نہ ہو وہ ایک قطع زمین پر اسلامی قوانین کس طرح نافذ کریں گے؟“

[تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا صفحہ 351 تا 365 ]

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ شیخ رشید صاحب کے دوسرے مرشد یعنی شورش کاشمیری صاحب کے کیا نظریات تھے؟ عمومی طور پر پاکستان میں شورش کاشمیری کو ایک صحافی شاعر اور رسالہ ”چٹان“ کے مدیر کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جب قرارداد لاہور کے بعد پاکستان کے حصول کے لئے جد و جہد کی جا رہی تھی تو اس وقت شورش صاحب نے کیا خدمات سر انجام دیں۔ نہایت اختصار سے ان کی صرف ایک خدمت کا ذکر کرتے ہیں۔ 1944 میں شورش صاحب نے ”خطبات احرار“ کی جلد اول مرتب کی اور اسے مکتبہ احرار نے شائع کیا۔ مجلس احرار کے ان صدارتی خطبات میں نظریہ پاکستان پر شدید حملے کیے گئے تھے۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے لیڈروں کا تمسخر اڑایا گیا۔ اور مسلم لیگ کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تحریک کو زمانی لحاظ سے شر انگیز قرار دیا گیا تھا۔

مناسب ہو گا اگر شیخ رشید صاحب خود وضاحت فرما دیں کہ کیا ان کے نظریات بھی وہی ہیں جو کہ ان کے مرشد عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب کے تھے یا وہ ان کے مرید ہونے کے با وجود ان کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔ اور معلوم نہیں کہ یہ ارادت صرف شیخ رشید صاحب تک محدود ہے یا عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کے قائدین بھی شیخ رشید کے اتحادی ہونے کے علاوہ ان کے پیر بھائی بھی ہیں۔ بہتر ہو گا اگر اس مسئلہ پر عمران خان صاحب خود ہی روشنی ڈالیں۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ جلسہ شروع تو اس اعلان سے ہوا تھا کہ قرارداد لاہور اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کی جائے گی اور انجام اس پر ہوا کہ تحریک پاکستان کے مخالفین سے عقیدت اور ارادت کا اعلان کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments