گورکن کی دعا، مرے کوئی یا خدا


میں اکثر یہ جملہ لوگوں سے سنتا ہوں کہ اللہ بچائے، کورٹ کچہری اور ہسپتال سے۔ اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ ان دونوں جگہوں پر اکثر لوگوں کا مشاہدہ یا پھر تجربہ بھی کوئی خوشگوار نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہر کوئی علاج کروا نہیں سکتا اور سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح سے سہولیات نہیں جیسے لوگ چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ایک تلخ تجربے بلکہ عزت نفس کو مجروح کر کے لوٹتے ہیں۔ اسی طرح کورٹ کچہری میں بھی انصاف عدالتوں سے فوری ملنا اتنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

لوگ فوری انصاف کا سوچ کر آتے ہیں اور اس فوری انصاف کے چکر میں ان کو سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بھی اکثر لوگ ایک تلخ تجربے کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور کورٹ کچہری میں ججز، کورٹ کے عملے اور وکیلوں کا رویہ بھی شامل ہے۔ ( یہ میں پہلے واضح کروں کہ اچھے بھرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، مستثنیات ہر جگہ نافذ العمل ہوتے ہیں ) ۔

دراصل بعض پروفیشن یا کاروبار ہوتے ہی ایسے ہیں کہ ادھر آتے ہی دکھی، پریشان حال، اور حالات و واقعات کے مارے اور ستائے ہوئے لوگ۔ اور ان سے وابستہ لوگوں کی بقول شخصے روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہوتی ہے اور دوسری طرف خدمات بھی ہیں۔ اگر چارج زیادہ کریں تو لوگ نالاں، کم فیس یا سرے سے فیس ہی نہ لیں تو اپنا سروائیول مشکل بلکہ بعض تو اس ہی فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ گھوڑا اگر گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا۔

ڈاکٹروں کا بھی سیزن ہوتا ہے۔ جب موسم بدل رہا ہوتا ہے تو موسمی بیماریوں کے وائرس پھیل جاتے ہیں۔ بخار، بدن درد، زکام اور کھانسی چلتی رہتی ہے۔ ویسے زکام کے بارے میں کسی سیانے کا قول ہے کہ ”زکام کا اگر علاج کراؤ تو ایک ہفتے میں بیمار ٹھیک ہو جائے گا اور اگر علاج نہیں کرتے تو سات دنوں میں بندہ شفایاب ہوجاتا ہے“ دراصل ہر پروفیشن یا کاروبار کا اپنا طلب و رسد کا پیمانہ ہے وہ اسی پر خود کو اور لوگوں کو ناپتا ہے۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر کے پاس اگر ہفتہ دس دن میں کوئی مریض نہیں آتا تو وہ اگر دعا یہ نہیں کرتا کہ اللہ کرے کہ کوئی بیمار ہو جائے تو دل میں یہ خواہش ضرور کرے گا کہ ہفتہ آٹھ دنوں سے کوئی بیمار ہی نہیں ہو رہا ہے تاکہ ان کی کلینک کا رخ کریں۔ بالکل اسی طرح جب کسی کے آپس میں تنازعات ہوں گے یا پکڑ دھکڑ ہوگی تو کوئی کورٹ کچہری کا رخ کرے گا اور کسی وکیل صاحب کے خدمات ان کو درکار ہوں گی۔ بالکل ڈاکٹرز کی طرح ان کی بھی اگر دعا کسی کے تنازعات یا پکڑ دھکڑ کی نہیں ہوگی لیکن دل ہی دل میں یہ ضرور خواہش رکھیں گے کہ کوئی تنازعہ ہو، کوئی کرائسز ہو، کوئی پکڑ دھکڑ ہو کوئی آئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔

اسی طرح پولیس کے بارے میں تو لوگوں نے یہ پہلے سے طے کیا ہوا ہے کہ ”پولیس کی بے خبری میں خیر ہوتا ہے۔“ پولیس کے بارے میں ہمارے بار کے ایک سینئر ترین وکیل کا قول ہے کہ پولیس تب تک ملزموں کے پیچھے بھاگتی ہے جب تلک ان کو پکڑ نہ لیں پھر جب ان کو پکڑ لیتی ہے تو ان کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ پہلے آپریشن والے ان کی خوب خبر لیتے ہیں اور پھر تفتیش والے ان کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں۔ اسی طرح گورکن کا بھی یہی حساب ہے۔ وہ بھی ڈیلی ویجز مزدور ہوتا ہے۔

ہوائی روزی ہے کوئی مرا تو قبر اور دفنانے کے کام کے پیسے نکل آئیں گے ورنہ مرے ہوئے شخص کی مانند جو خالی ہاتھ اس دنیا سے جا رہا ہوتا ہے یہ بھی خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹے گا۔ بالکل اسی طرح صحافت بھی ہے۔ صحافت یا صحافی کرائسز، خبر در خبر، ہلہ گلہ، ہنگاموں، مار دھاڑ، جلاؤ گھیراؤ، پکڑ دھکڑ، سیاسی افراتفری اور سیاسی و اقتصادی بحران میں پنپتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو ٹاک شوز کے اینکرز اور تبصرہ نگاروں کی سلیبرٹیز کی طرح جگہ جگہ، سڑکوں اور چوراہوں پر سائن بورڈ لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو فلمی ستاروں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔

رؤف کلاسرا ایک ٹاک شو میں بتا رہے تھے کہ جب انھوں نے شروع شروع میں کسی اخبار کو کرائم رپورٹر کی حیثیت سے جوائن کیا تھا تو ایک دن سارے ان کے آفس کے ساتھی چلے گئے اور وہ بیٹھے رہے کہ اس دوران ایک سینئیر صحافی ( شاید بخاری صاحب تھے ) وارد ہوئے پوچھا ابھی تک بیٹھے ہوئے ہو، جس پر رؤف کلاسرا بولے کوئی خبر ہی بریک نہیں ہوئی کرائم کے حوالے سے اب تک۔ جس کے جواب میں بخاری صاحب بولے صبر کرو، اللہ فضل کر دے گا۔

پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کا بھی یہی قصہ ہے۔ ان کا کاروبار بھی جب چلتا ہے جب شہر شہر میں لاقانونیت ہو، بدامنی ہو، چوری اور ڈاکا زنی ہو تو لوگ پرائیویٹ کمپنیوں کے خدمات کے لئے ان کے ہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اور پرائیویٹ کمپنیوں کے مالکان بھی اگر شہر شہر بدامنی، لاقانونیت چوری اور ڈاکا زنی برقرار رکھنے کے لئے بدست دعا نہیں ہوتے پر دل ہی دل میں یہ خواہش ضرور رکھتے ہوں گے کہ ایسے مواقع بار بار تھوڑی آتے ہیں بس یہ سلسلہ جب تک اور جہاں تک ہو سکے دراز رہے۔

پھر کل کس نے دیکھی ہے، پھر کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک۔ رینجرز تو جیسے گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے بغیر کسی دعا اور بغیر کسی خواہش کے اس شہر کے کالجوں، یونیورسٹیوں، سرکاری عمارتوں اور جناح کورٹس پر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر براجمان ہے۔ ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن ہے جو کہ ان کو مل رہا ہے۔ اور سٹریٹ کرائم سمیت ہر قسم کے جرمیات اس شہر میں اس طرح ناپید ہے جیسے چڑیا کا دودھ۔ بلکہ اس بات میں کتنی حقیقت ہے خدا جانے!

لیکن بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کی جب رینجرز کے جانے کی میعاد ختم ہونے کو آتی ہے تو شہر میں پھر سے بدامنی، لاقانونیت، چوری، ڈکیتی اور سٹریٹ کرائم زور پکڑتے ہے اور جب یہ ایکسٹینشن مل جاتی ہے تو پر حالات قابو میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں رینجر نہیں پبلک دعا مانگتی ہے کہ رینجر شہر میں رکی رہے کیونکہ اب پبلک رینجرز کے ساتھ اتنی عادی ہو چکی ہیں کہ کچھ کریں یا نہ کریں بس وہ ہماری حفاظت پر معمور رہیں اور اب پبلک ان کے ساتھ اتنی مانوس ہو گئی ہے کہ ان کے جانے کے بعد کراچی خالی خالی اور سونا سونا لگ رہا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments