ملکہ برطانیہ کے نام کھلا خط! (نو آبادیاتی نظام کے نام نہاد خاتمے کے بعد کا پس منظر)


معزز ملکہ برطانیہ صاحبہ!

میں آج بڑے بوجھل دل سے آپ سے مخاطب ہوں کہ یہ ملک جو آزادی کے نام پہ، اسلام کے نام پہ آپ سے چھینا گیا تھا آج اپنی سالمیت کے آخری دوراہے پہ سسک رہا ہے، آپ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک برانچ جو یہاں چھوڑی تھی وہ آج اس ملک کے تمام سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں، انھوں نے اس ملک کے سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی وسائل کو جونک کی طرح چوس چوس کے ملک میں انتہا پسندی، عدم برداشت، دہشت گردی، فرقہ پرستی، مذہبی منافرت، علاقائیت کے بیج بو بو کر ہمیں گروہی درجہ بندیوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے اتنا کہ اتنی تقسیم تو آپ کے دور جبریت میں بھی نہیں تھی۔

آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے لگائے ہوئے متوسط ذہنی صلاحیتوں کے حامل نام نہاد جاگیر دار، وڈیرے، سردار اور سرمایہ دار اپنی اوقات سے بہت باہر ہو چکے ہیں۔ عوام پہ ان کے کیے گئے مظالم کی ایک نہی کئی داستانیں ہیں اور اب تو جیسے ایسی داستانوں کی عادت سی ہو گئی ہے۔ ان کے جبر کے نیچے کڑھتے کڑھتے عوام خودکش بمبار بن چکے ہیں یعنی اپنے ساتھ اپنے جیسے دس بارہ لوگوں کو اجل کی منزل اس لیے دینا چاہتے ہیں کہ انہیں اس خودکشی جیسی ذہنی اذیت کو سہنا نہ ہی پڑے۔

آپ کے چھوڑے ہوئے اس ترکے سے غریب کو تو کیا ہی کچھ ملتا غاصب طبقات کو بھی کچھ خاطر خواہ حصہ نہیں مل سکا جس کے ازالے کے طور پر ہر سال لاکھوں مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور مسکینوں کی بلی بے جا جزئیات کے نفاذ سے چڑھائی جاتی ہے۔ حالانکہ ایک عرصہ ہوا آپ کو یہ ملک اس کمپنی کے حوالے کیے اور یہ بھی کہ آپ نے ملک کا سربراہی آئینی عہدہ بھی کب کا چھوڑ دیا ہوا، پھر بھی جانے کس بیرونی سازش کا قلع قمع مقصود ہے یا کسی دشمن کو زیر کرنے کی ترکیب کہ سرحدوں کی حفاظت کی بجائے ہماری شہری آبادیوں میں آج بھی کنٹونمنٹ اور چھاؤنیاں نہ صرف اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ پھل پھول رہی ہیں بلکہ شہر کے اہم ترین حصوں میں ڈیفینس کمپلیکسز کا رجحان بھی زور پکڑ چکا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں عام افراد اور کتوں کے داخلے کی پابندی آج بھی اسی طرح سے قائم ہے جو کبھی آپ کے دور میں رائج تھی۔

ملکہ صاحبہ! آپ کے دور میں یہاں لگایا گیا جدید ترین ریلوے نظام اپنے اختتام کو پہنچا، آپ کا بنایا ہوا بہترین نہری نظام اب بطور سیوریج سسٹم تو کہیں کہیں استعمال ہو رہا ہو تو ہو مگر پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں آب پاشی سے قاصر ہے۔ کسانوں کا آج کے دور میں آپ کے دور سے کہیں زیادہ بدتر حال ہو چکا وہ الگ بات کہ وسائل اور ٹیکنالوجی میں آپ کے دور سے کئی گنا زیادہ ترقیاتی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ \

ہاں مگر آپ کا بنایا ہوا علامتی عدالتی نظام اپنی مدت پوری کر چکنے کے بعد بھی آپ ہی کے دور کی طرز جیسے کثیرالاستعمال نظریہ ضرورت اور دور اندیش فیصلوں کی روشنی میں آپ کی لاڈلی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سب برانچ کی حاکمیت کو ممکن بنائے رہنے میں پیش پیش ہے۔ اور ہاں! یہ بھی کہ آپ نے جس طرح سے اس دور میں پریس کو منظم کیا ہوا تھا اور آزادی یا تنقید یا اظہار رائے کی روک تھام کے لئے جو جو اقدامات کیے تھے، آج اس دور سے کہیں زیادہ موثر اقدامات موجود ہیں اور مذموم مقاصد کی تکمیل جاری ہے۔

ایک مسئلہ لیکن یہ ہوا ہے کہ آپ نے جو کلاس سسٹم مرتب کیا تھا خواہ وہ ریلوے کے ڈبوں میں ہو یا نظام تعلیم میں، اس کلاس سسٹم کو توڑ موڑ کر انتہائی پرلے درجے کے لوگ اپر کلاس میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ اس اپر کلاس نے آپ کے بنائے ہوئے سارے اصولوں، قاعدوں، ضابطوں، اور سلسلوں سے قطع نظر انتہائی گھٹیا طرز زندگی پہ مبنی معاشرت تشکیل دی ہے جس سے ہماری ثقافت، اخلاقیات، رسم و رواج، روایت و اسالیب، تہذیب و تمدن اور مذہبی اقدار کو جو ٹھیس پہنچی ہے وہ تو آپ چاہ کر بھی اگلے ہزار سال تک نہ کر پاتے۔ مزید یہ کہ یہ کلاس جو سرمایہ کے تابع بن چکی ہے، نے اسی بد تمیز سرمایہ داری سے تعبیر سٹیٹس کو کی بنیاد رکھی ہے جس نے ایسی کوئی انتہا درجے کی بد عنوان، بد قماش، بد نسل، بے راہ، بد دیانت، بد کردار اور بے حیا جنریشن کو پروان چڑھایا ہے کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔

ملکہ صاحبہ! یہ ملک اب ملک کہلانے کے قابل بھی نہیں رہا کہ یہ اپنی سالمیت کھو چکا ہے، یہاں ہر جاہ لوٹ کا بازار گرم ہے ایسا جو آپ کے دور میں ہوا نہ کہیں ہو گا اور نہ آپ نے کبھی سنا۔ یہاں کسی کی آبرو محفوظ ہے نہ جان، نہ کوئی آزادی سے سانس لے سکتا ہے اور مرنے کی تو کیا ہی بات کروں۔ ہر طرف لا اوبالی کیفیت ہے، چیخ و پکار، پکڑ دھکڑ، اور آہ و بکا کی آوازیں ہیں۔ ہر سو جتھوں کی شکل میں محافظوں کے بھیس میں لٹیرے، ڈکیت اور جرائم پیشہ افراد کا راج ہے۔

یہاں کا قانون مذاق بن چکا، عدلیہ باندی، مقننہ بازار اور انتظامیہ ویشیا۔ ہر صبح ظلم و جبر کی نئی داستانوں کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اور ایسی ایسی داستانیں کے سنانے والے سنا نہ پائیں اور سننے والے سن نہ سکیں۔ پر منہ سے نکلتی ہوئی فریاد ایسی تکلیف دہ کہ آپ کے حواس ساتھ چھوڑ جائیں اور پاؤں زمین۔ آپ سے التجا ہے کہ براہ کرم یہ تماشا بہت ہو چکا! آپ کی چھوڑی ہوئی یہ جدید نو آبادیاتی ریاست مزید کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سب برانچ کی متحمل نہیں ہو سکتی لہذا اسے اپنے کنٹرول میں واپس لے لیں کہ شاید اس سے ہی کوئی پل سکون کا میسر آ جائے۔

خدا حافظ
آپ کی نو آبادیاتی ریاست کا ایک ادنیٰ غلام
عبدالمالک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments