گرتے ہوئے راکٹ کو ہیلی کاپٹر سے فضا میں پکڑنے کا تجربہ


نیوزی لینڈ سے الیکٹران راکٹ زمین کے مدار میں روانہ کیا جا رہا ہے جو وہاں 34 سیٹلائٹ لانچ کرنے بعد زمین پر لوٹ آیا۔ واپسی پر اس راکٹ کو ہیلی کاپٹر سے پکڑنے کی جزوی کامیاب کوشش کی گئی۔ 3 مئی 2022

ویب ڈیسک — کرکٹ کے کھیل میں کئی کیچ اس لیے ڈراپ ہو جاتے ہیں کیونکہ تیز رفتار گیند کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا, جب کہ ایک گرتے ہوئے راکٹ کو پکڑنا تو اور بھی مشکل کا م ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ میں ایک کمپنی نے ہیلی کاپٹر کی مدد سے زمین پر تیزی سے گرنے والے ایک راکٹ کو پکڑنے کے تجربے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔

یہ کمپنی اپنے راکٹوں کے ذریعے سیٹلائٹس کو خلا میں پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ راکٹ زمین کے مدار میں سیٹلائٹ پہنچانے کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اب کچھ عرصے سے یہ کمپنی اپنے اخراجات میں کفایت کے لیے ایسے راکٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو سیٹلائٹ خلائی مدار میں پہنچانے کے بعد دوبارہ زمین پر لوٹ آئے تاکہ اس میں ایندھن بھر کر بار بار استعمال کیا جا سکے۔

یہ ٹیکنالوجی الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا اور خلابازوں کو خلائی سفر کی سہولت مہیا کرنے والی کمپنی سپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے ایجاد کی ہے اوراس کے ڈیزائن کیے ہوئے راکٹ، فالکن 9 ماڈل سے خلا میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد زمین پر لوٹ آتے ہیں جنہیں متعدد بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔

راکٹ کے ایک حصے میں ان چیزوں کے لیے جگہ ہوتی ہے جنہیں خلا میں پہنچانا مقصود ہوتا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ایندھن بھر دیا جاتا ہے۔ ایندھن کو جب آگ لگائی جاتی ہے تو تیزی سے خارج ہونے والا دھواں راکٹ کو اوپر دھکیلتا ہے۔ منزل مقصود پر پہنچ کر ایندھن ختم ہونے کے بعد زمین کی کشش ثقل راکٹ کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ تیزی سے گرنے لگتا ہے۔

جب کوئی چیز خلا سے زمین کی جانب بڑھتی ہے تو اس کی رفتار میں 32 فٹ فی سیکنڈ کا اضافہ ہونے لگتا ہے جسے اسراع کہتے ہیں۔ ایک مرحلے پر پہنچے کے بعد یہ رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ چیز زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہاب ثاقب اور دوسرے اجسام زمین پر نہیں گرتے اور ہم محفوظ رہتے ہیں۔

ہیلی کاپٹر میں نصب خصوصی آلے کے ذریعے زمین پر گرنے والے راکٹ کے پیراشوٹ کو پکڑا جا رہا ہے۔
ہیلی کاپٹر میں نصب خصوصی آلے کے ذریعے زمین پر گرنے والے راکٹ کے پیراشوٹ کو پکڑا جا رہا ہے۔

تاہم راکٹ یا کسی دوسری چیز کو زمین پر اتارنے کے لیے اس کے ساتھ پیراشوٹ باندھ دیا جاتا ہے۔ کرہ ہوائی میں داخل ہونے کے بعد پیراشوٹ کھل جاتا ہے اور وہ چیز آہستہ آہستہ زمین پر اتر جاتی ہے۔

چاند، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور دیگر خلائی مہمات پر جانے والے خلابازوں کے کیپسول کو حفاظت کے پیش نظر عموماً سمندر میں اتارا جاتا ہے جہاں کشتیوں میں سوار عملہ ان کا منتظر ہوتا ہے۔

لیکن نیوزی لینڈ کی راکٹ کمپنی اس کوشش میں ہے کہ راکٹ کو پیراشوٹ کے ذریعے سمندر میں اتارنے کی بجائے فضا میں ہی ہیلی کاپٹر سے پکڑ کر وہاں پہنچا دیا جائے جہاں جانا مقصود ہو۔

زمین کے خلائی مدار میں سیٹلائٹ پہنچانے والی اس کمپنی کا نام راکٹ لیب ہے۔ اس کا صدر دفتر کیلی فورنیا میں واقع ہے جب کہ یہ اپنے راکٹ نیوزی لینڈ کے ایک دور افتادہ جزیرے ماہیا سے بھیجتی ہے۔ یہ کمپنی پیٹر بیک کی ہے اور وہ اپنے خلائی مقاصد کے لیے جو راکٹ استعمال کرتی ہے ، اسے الیکٹران کہتے ہیں۔

الیکٹران چھوٹے سائز کا ایک راکٹ ہے۔ تاہم یہ اتنا بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ اس راکٹ کی لمبائی 18 میٹر یعنی 59 فٹ ہوتی ہے۔ اس کے ایک حصے میں چند درجن سیٹلائٹ رکھنے اور دوسرے حصے میں اتنے ایندھن کی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ زمین کے خلائی مدار تک پہنچ سکے۔

پیٹر پیک یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر بار ایک نیا راکٹ استعمال کرنے کی بجائے ایک ہی راکٹ کو بار بار استعمال کر کے اپنے اخراجات بچا سکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے راکٹ میں پیراشوٹ کا استعمال کر رہے ہیں جس سے زمین پر گرتے وقت راکٹ کی رفتار 33 فٹ فی سیکنڈ رہ جاتی ہے اور وہ ہوا کی رگڑ کے باعث گرم ہو کر جلنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس وقت ان کا راکٹ بحرالکاہل میں گرتا ہے جسے ایک بڑی کشتی کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا ہے اور وہاں سے سڑک کے راستے وہ دوبارہ استعمال ہونے کے لیے راکٹ لیب کے مرکز میں چلا جاتا ہے۔

تاہم باربرداری کے ان مراحل پر بھی اخراجات اٹھتے ہیں۔ بیک ان اخراجات سے بھی بچنا چاہتے ہیں،جس کے لیے انہوں نے راکٹ کو زمین پر اترتے وقت ہیلی کاپٹر کے مدد سے فضا میں ہی پکڑ کر راکٹ لیب کے مرکز پہنچانے کا سوچا۔

کمپنی کے سائنس دانوں نے اس منصوبے پر خوب سوچ بچار کی۔ راکٹ کی رفتار، کشش ثقل، ہیلی کاپٹر کی قوت اور کئی دیگر عوامل کا ڈیٹا اکھٹا کیا اور ایک قابل عمل منصوبہ تیار کیا ۔

منگل 3 مئی کو الیکٹران راکٹ کے ذریعے 34 سیٹلائٹ خلا میں پہنچائے گے۔ جب راکٹ کی واپسی ہوئی اور اس کا پیراشوٹ کھل گیا تو سمندر کے قریب فضا میں ایک طاقت ور ہیلی کاپٹر اس کا منتظر تھا۔ جیسے ہی راکٹ قریب پہنچا تو ہیلی کاپٹر میں نصب ایک خصوصی ہاتھ نے اس کا پیراشوٹ پکڑ لیا اور راکٹ ہیلی کاپٹر کے کنٹرول میں آ گیا۔

اس موقع پر راکٹ لیب کے مرکزی کنٹرول روم میں موجود عملے نے خوشی سے تالیاں بجائیں، لیکن خوشی کے یہ لمحات مختصر ثابت ہوئے اور 20 سیکنڈ کے بعد ہیلی کاپٹر کے عملے نے راکٹ کو الگ کر دیا کیونکہ راکٹ گرنے کی قوت اتنی زیادہ تھی کہ ہیلی کاپٹر اسے کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں راکٹ ہیلی کاپٹر کو زمین پر ہی نہ گرا دے۔

اس کے بعد راکٹ بحرالکاہل میں اپنے مقررہ مقام پر اتر گیا جہاں اسے لینے کے لیے عملہ پہلے سے موجود تھا۔

کمپنی نے اپنی اس جزوی کامیاب مشن کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے حاصل ہونے والا ڈیٹا مکمل کامیابی کی راہیں کھول دے گا اور مستقبل قریب میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راکٹ کو فضا میں ہی پکڑ کر مقررہ مقام پر لے جایا جا سکے گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments