جب امریکہ نے ڈیڑھ کروڑ ڈالر دے کر اپنا رقبہ دگنا کیا


دو صدیاں قبل امریکہ نے کسی جنگ کے بغیر اپنے رقبے میں لاکھوں مربع میل علاقہ شامل کرلیا تھا اور اس کے لیے کوڑیوں کے بھاؤ زمین خریدی تھی۔ مئی 1803 میں امریکہ کے رقبے میں ہونے والے اضافے کا یہ قصہ آج عجیب محسوس ہوتا ہے لیکن اس دور کی تاریخ اور پس منظر میں کارفرما عوامل جانے بغیر یہ کہانی سمجھی نہیں جاسکتی۔

آج امریکہ کی ریاستوں کی تعداد 50 ہے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب 1776 میں برطانوی نوآبادیات سے آزادی کے بعد یہ صرف 12 ریاستوں پر مشتمل تھا۔اس نئی قائم ہونےوالی ریاست نے 1778 میں اپنا آئین بھی بنا لیا تھا ۔ اس وقت تک امریکہ کی ریاستوں کی آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت تھا اور آبادی بہت پھیلی ہوئی تھی۔ کسانوں کی آبادیوں میں مکانات ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہوا کرتے تھے۔

رہائش کے لیے اراضی کی کوئی کمی نہیں تھی۔ لیکن زراعت بڑھانے کے لیے بعض امریکی مزید زمین حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں ںے مغرب میں ایلیگنی کے پہاڑی سلسلے کا رخ کرنا شروع کردیا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ موجودہ ریاستوں کینٹکی اور ٹینیسی میں جا کر آباد ہوگئے تھے۔

اس دور میں سفر کے لیے موجودہ دور جیسی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ امریکہ میں بڑی شاہراہیں اور سڑکیں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں۔ زیادہ تر لوگ پیدل یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے اور سفر کے ساتھ ساتھ سامانِ تجارت اور ضروری اشیا کی نقل و حرکت دریاؤں میں چلنے والی کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔

تجارتی سامان کی نقل و حرکت کی وجہ سے امریکہ کے لیے یہ دریائی راہداریاں بہت اہم تھیں کیوں کہ شمالی بحر اوقیانوس سے متصل امریکہ کے مشرقی ساحلی پٹی سے اجناس اور دیگر تجارتی سامان کی آمد و رفت انہی دریائی راستوں سے ہوتی تھی۔

نقشے میں وہ علاقہ ہلکے رنگ میں واضح ہے جو اس معاہدے کے تحت امریکہ نے فرانس سے حاصل کیا تھا۔

اس کے علاوہ امریکہ بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کے لیے جو اناج اور کپڑے وغیرہ برآمد کرتا تھا انہیں نیو اورلینز سمیت دیگر بندرگاہوں تک پہنچانے کے لیے بھی دریا کا راستہ استعمال کیا جاتا تھا۔ یعنی اس دور میں کشتیاں بار بردار ٹرکوں کے مانند تھیں اور دریا ہائی ویز کا کام دیتے تھے۔

امریکہ کو بندر گاہوں سے ملانے والے دریا نیو اورلینز کے علاقے میں بہتے تھے اور اسی وجہ سے امریکہ کے لیے یہ علاقہ انتہائی اہمیت رکھتا تھا۔ اس وقت امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ تھا کیوں کہ عالمی منڈیوں میں امریکہ کی فروخت ہونے والی اشیا کا ایک تہائی انہیں دریاؤں سے گزر کرنیو اورلینز کی بندرگاہ تک پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ صدر جیفرسن اس خطے میں بہنے والے دریاؤں کی وجہ سے یہاں کی زرخیز زمین میں مستقبل کے کئی امکانات دیکھ رہے تھے۔

یہ زمین کس کی تھی؟

نیو اورلینز کی بندرگاہ اس دور کے ایک وسیع علاقے میں شامل تھی جسے لوئزیانا کہا جاتا تھا۔سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں فرانس، برطانیہ اور اسپین جیسی یورپی نو آبادیاتی قوتیں دنیا بھر میں اپنے کاروباری مقاصد اور سلطنتوں کو وسعت دینے کے لیے نئی سرزمینوں کی تلاش میں تھیں۔ یہ قوتیں اب شمالی امریکہ کی کا رخ کر چکی تھیں اور رفتہ رفتہ اس خطے میں اپنے قدم جما رہی تھیں ۔

اسی دور میں لوئزیانا کے زیادہ تر علاقے فرانس کے پاس تھے۔ لیکن یہاں فرانس نے کوئی مضبوط انتظامی ڈھانچہ قائم نہیں کیا تھا اور شمالی امریکہ کے دیگر خطوں پر اس کی توجہ زیادہ تھی۔

اٹھارہویں صدی کے اواخر تک فرانس اور برطانیہ یورپ میں زیادہ سے زیادہ طاقت اور وسیع سلطنت کے لیے جاری مسابقت میں ایک دوسرے کے حریف بن چکے تھے۔ 1756 میں یہ دونوں حریف اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے تھے اور ان دونوں کے کیمپوں کے درمیان ’سات سالہ‘ جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ یورپ میں ہونے والی اس جنگ کی وجہ سے لوئزیانا جیسے دور افتادہ خطے پر فرانس کی توجہ اور بھی کم ہوگئی اور 1762 میں اس نے یہ علاقہ ایک اور یورپی نوآبادیاتی قوت اسپین کے حوالے کردیا۔

سن 1799 میں پہلے انقلاب کی ہنگامہ خیزی سے نکلنے کے بعد جب نپولین بوناپارٹ کی قیادت میں فرانس ایک مرتبہ پر طاقت ور ہونا شروع ہوا تو اس نے اسپین سے ایک خفیہ معاہدے کے تحت لوئزیانا کے علاقے واپس لے لیے۔

صدر جیفرسن کو لوئزیانا کا علاقہ ایک بار پھر فرانس کے کنٹرول میں جانے پر شدید تشویش تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسپین کے مقابلے میں فرانس بہت زیادہ طاقت ور تھا۔ جیفرسن کو خدشہ تھا کہ لوئزیانا کا علاقہ فرانس کے پاس جانے کے بعد امریکہ کو نیو اورلینز کی بندرگاہ تک اپنے سامانِ تجارت کی نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نپولین نے اس وقت جو جارحانہ انداز اختیار کر رکھا تھا اس کے پیش نظر اپنے پڑوس میں ایک توسیع پسندانہ قوت کا پڑاؤ ہونا بھی صدر جیفرسن کے لیے دردِ سر کی بڑی وجہ تھا۔ لیکن ساتھ ہی وہ یورپ میں نپولین کی مہم جوئی سے بھی واقف تھے اور انہیں اندازہ تھا کہ ان مہمات کے لیے درکار وسائل کا انتظام کیے بغیر نپولین بہت زیادہ عرصے تک انہیں جاری نہیں رکھ پائے گا۔

حالات کا جائزہ لینے کے بعد صدر جیفرسن نے نپولین کو پیغام بھجوایا کہ امریکہ لوئزیانا کا علاقہ فرانس سے خریدنا چاہتا ہے۔ لیکن نپولین کے عزائم تو کچھ اور ہی تھے۔ وہ شمالی امریکہ میں فرانس کی سلطنت کو وسعت دینے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ اس کے لیے نپولین نے کیربیئن کے جزیرے سینٹ ڈومینگو یعنی آج کے ہیٹی پر فوج کشی کردی تھی۔ نپولین کی نظر اس خطے میں شکر کی منافع بخش تجارت پر تھی۔

ان حالات میں جب نپولین نے صدر جیفرسن کی پیش کش ٹھکرا دی تو ان کی تشویش مزید بڑھ گئی۔ وہ بھانپ گئے تھے کہ سلطنت کو وسعت دینے کے لیے نپولین کو جو سرمایہ چاہیے اس کے لیے وہ کسی بھی منافع بخش تجارتی خطے اور راستے کو قابو میں کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے تو وہ اس محاذ سے نمٹنے کے بعد کیوں کر لوئزیانا میں امریکہ کے تجارتی راستوں کی جانب متوجہ نہیں ہوگا۔

اس لیے انہوں ںے ایک بار پھر اپنے سفارت کاروں کے ذریعے نپولین کو لوئزیانا کا علاقہ خریدنے کا پیغام پہنچایا اور اس بار پیش کش کی رقم بڑھا کر ایک کروڑ ڈالر کردی مگر نپولین نے پھر انکار کردیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ نپولین نے جس پیش کش کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا بعد میں مجبوراً وہی اسے تسلیم کرنا پڑی۔

نپولین کے لیے سرپرائز

سینٹ ڈومینگو کا جزیرہ غلاموں کی تجارت کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ اگرچہ فرانس یہاں پہلے تسلط قائم کرچکا تھا لیکن 1791 میں غلاموں کی بغاوت کے بعد یہاں حالات فرانس کے قابو سے باہر تھے۔ نپولین کا خیال تھا کہ اس کی منظم فوج کے سامنے غلاموں کی یہ مزاحمت زیاد ہ عرصہ ٹھہر نہیں پائے گی۔ لیکن نپولین کو اس وقت حیرت کا جھٹکا لگا جب سابق غلاموں کی مزاحمت نے اس کی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ نپولین نے اس مزاحمت کو کچلنے کے لیے مزید فوج بھیجی لیکن اسے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا کے مطابق پے در پے شکست سے نپولین کے حوصلے پست ہوگئے اور اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ وہ سینٹ ڈومینگو پر قابو نہیں پاسکے گا۔ اس ناکامی کے بعد سینٹ ڈومینگو میں شکر کی تجارت سے بڑا منافع حاصل کرنے کے اس کے خواب بھی چکنا چور ہوگئے تھے۔

نپولین کو یہ بھی اندازاہ تھا کہ سینٹ ڈومینگو سے سرمایہ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد شمالی امریکہ میں وہ اپنی سلطنت کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ اس کے علاوہ نپولین نے یورپ میں بھی کئی محاذ کھول رکھے تھے اور ان جنگوں کے لیے بھی اسے مالی وسائل درکار تھے۔

انہی حالات نے نپولین کو امریکہ کی پیش کش تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا اور اس بار اس سودے کے لیے بات چیت کا آغاز بھی اسے خود کرنا پڑا تھا۔

اپریل 1803 میں نپولین نے پیرس میں ایک دفتر میں امریکی سفارت کاروں کو ملاقات کے لیے بلایا۔ نپولین خود تو براہ راست ان مذاکرات میں شامل نہیں ہوا البتہ اس ملاقات میں ایک فرانسیسی عہدے دار نے امریکی سفارت کاروں کو یہ پیش کش کی کہ اگر امریکہ نیو اورلینز کی بندرگاہ کے ساتھ لوئزیانا کا علاقہ بھی خریدنا چاہے تو فرانس اس سودے کے لیے تیار ہے۔

بیس لاکھ مربع کلو میٹر کے اس علاقے کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ڈالر طے پائی۔ یہ قیمت اتنی کم تھی کہ امریکہ کو ایک ایکڑ تین سینٹ سے بھی کم قیمت میں پڑا۔ خریداری کا یہ معاہدہ 30 اپریل 1803 کو تیار کیا گیا اور دو مئی کو اس پر دستخط ہوئے جس کے بعد سات ماہ کے اندر فرانس نے اس پورے علاقے کا کنٹرول امریکہ کے حوالے کردیا۔

امریکہ میں اس معاہدے کو ’لوئزیانا پرچیز‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ تاریخ دان جوزف ایلز کے مطابق یہ معاہدہ صدر جیفرسن کی سب سے بڑی کامیابی تھی اور ایسا تاریخی واقعہ تھا جس نے امریکہ کی تاریخ کا رُخ تبدیل کرکے رکھ دیا۔

لوئزیانا کی خریداری اہم کیوں تھی؟

لوئزیانا کی زمین خریدتے وقت صدر جیفرسن کے ذہن میں سب سے پہلے تجارتی مفادات کا تحفظ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں اس کی دیگر جہتوں کا بھی ادراک تھا۔

لوئزیانا کی خریداری کے بعد اس وقت کے امریکہ کا رقبہ دگنا ہوگیا تھا۔ آج بھی لوئزیانا کا پورا خطہ امریکی رقبے کا ایک تہائی بنتا ہے اور یہ اتنا بڑا علاقہ تھا کہ اس میں بعد میں لوئزیانا سمیت امریکہ کی 15 ریاستیں بنائی گئیں۔

اس کے علاوہ لوئزیانا کی زمین کے ساتھ مسی سپی کا دریا بھی امریکہ کی ملکیت میں آگیا۔ یہ شمالی امریکہ کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس سے ملحقہ وسیع علاقہ بہت زرخیز ہے اور اس کے امریکہ میں شامل ہونے سے زرعی پیداوار میں اضافہ بھی صدر جیفرسن کے پیش نظر تھا۔

وائس آف امریکہ کے لیے کیلی جان کیلی کے ایک مضمون کے مطابق صدر جیفرسن امریکہ کے نظامِ حکومت کے استحکام کے لیے بھی لوئزیانا کی خریداری کو اہم سمجھتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ امریکہ ایک زرعی ملک رہے گا اور اس میں زیادہ تر آبادی بھی کسانوں کی ہوگی اور وہی اس پر حکومت بھی کریں گے۔ اس لیے ایک بڑے زرعی خطے کے ملک میں شامل ہونے کے نتیجے میں وسائل بڑھنے کے ساتھ کاروبارِ حکومت چلانے والے اہم ترین طبقے کی ترقی ان کے نزدیک نئی مملکت کے لیے ایک شاندار موقع تھا۔

پھر انہوں نے یہ کامیابی بغیر کسی جنگ کے بروقت فیصلے کے ذریعے حاصل کی تھی۔ اس لیے وہ امریکہ کو ’آزادی کی سلطنت‘ کہتے تھے۔ اگرچہ اس وقت امریکہ کی آبادی میں ہر پانچ میں سے ایک آدمی غلام تھا۔

خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بھی لوئزیانا کی خریداری امریکہ کے لیے بہت اہم ثابت ہوئی۔ لوئزیانا کے امریکہ میں شامل ہونے کے بعد فرانس شمالی امریکہ سے نکل گیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے سیاسی اور معاشی استحکام میں اضافہ ہوا۔ لوئزیانا کا خطہ شامل ہونے کے بعد ہی امریکہ دنیا کے بڑے اور باوسائل ممالک کی صفوں میں جا کھڑا ہوا اور اس کے بعد امریکہ کی جغرافیائی حدود اور عالمی اثر و رسوخ میں وسعت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments