پاکستان میں کووڈ سے بتائی گئی تعداد سے آٹھ گنا زائد ہلاکتیں ہوئیں: عالمی ادارہ صحت

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، حیدرآباد


ویکسین
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کووڈ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد آٹھ گنا زیادہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق وبائی امراض کے اثرات کو سمجھنے کے لیے اضافی اموات کی پیمائش ایک لازمی جُزو ہے اور کئی ممالک میں ڈیٹا سسٹمز میں محدود سرمایہ کاری کی وجہ سے زیادہ تر اموات کی اصل حد اکثر پوشیدہ رہتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عاصمہ کا کہنا ہے کہ یہ نئے اندازے دستیاب ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں اور ایک مضبوط اور مکمل طور پر شفاف طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں۔

تاہم پاکستان میں وزیر اعظم کے سابق معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ تخمینوں، مفروضوں اور اندازوں پر مبنی ہے اور اس میں زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ دو برسوں میں متوقع تعداد سے 13 فیصد زیادہ ہے۔

دوسری طرف عالمی طور پر کووڈ کے اعداد و شمار مرتب کرنے والی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کووڈ سے 62 لاکھ 47 ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں۔

پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کے مطابق چھ مئی 2022 تک 15 لاکھ 27 ہزار 956 مثبت کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ اس عرصے میں 30 ہزار 369 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں شرح اموات دو فیصد رہی جبکہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق شرح اموات آٹھ گنا زیادہ رہی۔

تاہم ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اموات کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا طریقہ کافی پائیدار تھا۔

کووڈ

’کوئی انفرادی طور پر تو گنتی نہیں کر رہا تھا، یہ ہزاروں صحت مراکز سے رپورٹ ہو رہی تھیں جن میں صوبائی حکومتیں بھی شامل تھیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کی تھیں۔ کوئی بھی نظام پرفیکٹ نہیں ہوتا جو سو فیصد درست معلومات فراہم کرے، جب آپ ہزاروں صحت مراکز سے ڈیٹا لے رہے ہوں تو کوئی اوور لیبل ہو جائے گا کوئی انڈر لیبل ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کے پاس آٹھ گنا زیادہ اموات ہوئی ہوں۔‘

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق 2020 اور 2021 میں حکومت نے قبرستانوں کا تجزیہ کیا کہ اموات کے جو اعداد و شمار آ رہے ہیں کہیں وہ کووڈ نمبرز سے الگ تو نہیں اس کے لیے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا تجزیہ کیا جہاں بڑے بڑے قبرستان ہیں۔

’پاکستان میں 97 فیصد آبادی مسلمان ہے جن کی تدفین ہوتی ہے۔ اب جہاں تدفین ہو رہی ہے تو وہاں سے رجحان کا پتہ چل جائے گا اگر ایک قبرستان میں ایک مہینے میں 1200 اموات ہوتی ہیں، اگلے سال کے مہینے میں وہ 1250 ہوں یا 1300 ہوں تو آپ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار مطمئن کرنے کی حد تک ٹھیک ہیں، یہ نہیں ہو رہا تھا کہ آٹھ گنا اموات ہونا شروع ہو گئی ہوں۔‘

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں ہر ملک کی آبادی کے تناسب سے وہاں پر کووڈ سے پہلے کی شرحِ اموات کو بھی دیکھا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار میں ان اموات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جو براہ راست کووڈ کی وجہ سے نہیں ہوئیں بلکہ اس کے اثرات کی وجہ سے ہوئیں، جیسے لوگ اپنی ضرورت کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتالوں تک رسائی سے قاصر رہے یا کچھ خطوں میں ناقص ریکارڈ رکھنے اور بحران کے آغاز میں کم جانچ کا بھی سبب بنا۔

ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مصر میں ریکارڈ کی گئی اموات سے 11 گنا سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، اس کے بعد انڈیا میں تقریباً 10 گنا زائد، پاکستان میں آٹھ گنا، انڈونیشیا میں سات گنا اور بنگلادیش میں پانچ گنا زائد اموات ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق اس بیماری کی علامات ایسی نہیں ہیں کہ کسی مریض کی حالت تشویش ناک ہو اور وہ کینسر یا ٹی بی کے مریض کی طرح گھر میں موجود رہے۔

’اس بیماری میں لوگوں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی چاہے مرد ہو یا خاتون۔ جب اس کو سانس نہیں آ رہی ہو گی تو وہ ہسپتال آئیں گے، لہٰذا جو بھی مریض تشویش ناک حالت میں تھے وہ ہسپتال تک پہنچے ہیں اور کہیں بھی ہسپتالوں اور آکسیجن اور بستروں کا فقدان نہیں ہوا۔

کووڈ

’انفرادی سطح پر یہ ضرور ہوا کہ کسی ایک دو ہسپتال میں ایسا ہوا ہو لیکن ملک میں مجموعی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے پاس بالکل درست اعداد و شمار تھے، ہمارے پاس دو فیصد شرح اموات رہی، مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اعداد و شمار سو فیصد درست نہیں ہوں گے لیکن یہ نظام کی غلطی ایسی نہیں ہے کہ آٹھ گنا اموات ہوئی ہوں۔‘

کراچی میں انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان جو کووڈ میں حکومت سندھ کے مشیر رہے وہ بھی ڈاکٹر فیصل سلطان کے مؤقف سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کووڈ کے ابتدائی دنوں میں بھی لوگوں کے خدشات تھے کہ اموات زیادہ ہو رہی ہیں۔

’یہاں کا ڈیٹا تصدیق شدہ نہیں ہوتا، لیکن جو قبرستان کا ڈیٹا ہوتا ہے وہ تصدیق شدہ ہوتا ہے کیونکہ بغیر داخلے کے تدفین ہو نہیں سکتی۔ جب یہ بات اٹھی تھی تو قبرستان کا ڈیٹا لایا گیا تھا کہ پچلے دنوں میں کتنی اموات ہوئی ہیں اور کیسے ہوئی ہیں، شروع میں تو کافی کنٹرول تدفین ہو رہی تھیں جس میں فیملی کو بھی میت نہیں دی جاتی تھی۔‘

ڈاکٹر باری کے مطابق مریضوں کی تعداد کے بارے میں ممکن ہے کہ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار درست نہ ہوں کیونکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی کو مرض ہو گیا اور اس نے ٹیسٹ نہیں کروایا، خود کو قرنطینہ کر لیا لیکن اموات کی شرح اتنی نہیں ہو سکتی۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات یعنی 84 فیصد جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں ہوئیں۔ اسی طرح تقریباً 68 فیصد زائد اموات عالمی سطح پر صرف 10 ممالک میں واقع ہوئیں ہیں۔ 24 ماہ کی مدت کے دوران 14 کروڑ 90 لاکھ اضافی اموات میں سے 81 فیصد متوسط آمدنی والے ممالک، 53 فیصد کم متوسط آمدنی والے ممالک اور 28 فیصد بالائی متوسط آمدنی والے ممالک میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عاصمہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک المیہ ہے۔ ’یہ ایک حیران کن تعداد ہے اور ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان جانوں کا احترام کریں جو ضائع ہوئی ہیں اور ہمیں پالیسی سازوں کو جوابدہ بنانا ہو گا۔ اگر ہم مرنے والوں کو شمار نہیں کرتے ہیں، تو ہم اگلی باری کے لیے بہتر طور پر تیار ہونے کا موقع گنوا دیں گے۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی یعنی 57 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین مرنے والوں میں شامل تھیں۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ اگر کسی ایک جگہ اموات ہوئی ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ یہی مفروضہ اور تخمینہ دوسری جگہ پر بھی نافذ ہو کیونکہ عمر کے تناسب سے، سماجی صورتحال، لائف اسٹائل، گھر کے سائز اور ماحول میں فرق ہوتا ہے، اسی طرح آمد و رفت کے ذرائع میں فرق ہے، یہی اس مفروضے کی ’بنیادی غلطی‘ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments