یوں گئے خالد کہ جیسے ہوں یہیں


میں پہلی بار لندن، فیض امن میلے میں شرکت کی خاطر گیا تھا۔ تب چونکہ میں خود ڈیجیٹل جرنلزم سے منسلک تھا، ریڈیو وائس آف رشیا کے صدائے روس کہلانے والے اردو شعبہ کے لیے خود بھی اے این پی کے میاں افتخار، سینیٹر افراسیاب خٹک اور سماجی تجزیہ کار پروفیسر ہود بھائی کے انٹرویو کرنے کے سلسلے میں مصروف رہا تھا چنانچہ دوسرے ملکوں اور شہروں سے آئے صحافی اور دانش ور حضرات سے مل نہ سکا تھا۔

بس ایک سرسری سی ملاقات برسلز سے لندن پہنچے عمران ثاقب چوہدری سے ہوئی تھی اور یورپ میں جیو کے بیورو چیف خالد حمید فاروقی سے بس دعا سلام۔

بعد میں فیس بک پہ خالد حمید فاروقی سے شناسائی بڑھی۔ مجھے 2018 میں، لندن کے انڈیا کلچرل سیکشن کے زیراہتمام، مرزا اسداللہ غالب کے سلسلے میں ہو رہی سہ روزہ کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنے، ریڈیو صدائے روس ماسکو میں اپنی رفیق کار اور ریڈیو وائس آف رشیا کے جنوب مشرقی ایشیا سے متعلق شعبہ کی سربراہ محترمہ ارینا میکسی مینکو کے ہمراہ برطانیہ جانا تھا۔

خالد بھائی کو خبر ہوئی تو مجھ سے فون پر رابطہ کر کے خواہش کی کہ میں برسلز ان کے ہاں ہوتا ہوا جاؤں۔ میں نے ان سے ای میل کے ذریعہ دعوت نامہ بھیجنے کو کہا جو انہوں نے ایک ذاتی خط کی شکل میں بھیج دیا جسے دکھا کے مجھے اگلے ہی روز چار روز کا بلجیم کا ویزا مل گیا۔ مجھے ویسے بھی یورو ایکسپریس ٹرین سے رودبار انگلستان کی تہہ میں بنی سرنگ کے ذریعے لندن جانے کا شوق تھا چنانچہ میں نے ارینا صاحبہ سے ان کے ساتھ براہ راست لندن جانے سے معذرت کی اور برسلز ائرپورٹ پر جا اترا۔

خالد حمید فاروقی لینے پہنچے ہوئے تھے۔ منحنی سے معنک، خوش اخلاق، مستعد خالد دیکھتے ہی اچھے لگے۔ گاڑی چلاتے ہوئے بولے کہ میرے ہاں برطانیہ سے خاقان مرزا بیوی بچوں کے ہمراہ آئے ہوئے ہیں۔ آپ کو ایک رات علیحدہ اپارٹمنٹ میں رہنا ہو گا پھر میں آپ کو اپنے گھر لے جاؤں گا۔ کھانا کھلا، رات اور صبح کے لیے اکل و شرب کا انتظام کر کے وہ اور ان کے دو دوست برسلز کے عین مرکز میں مجھے ایک سٹوڈیو میں ٹھہرا کر چلے گئے۔

نئی جگہ پہلی رات مجھے نیند نہیں آتی۔ دیر سے سویا صبح جلد بیدار ہو گیا۔ باہر نکلا، ادھر ادھر گھومتا رہا، زیادہ دور نہیں نکلا کہ کہیں راستہ نہ کھو دوں۔

کچھ دن چڑھا تو خالد پہنچے۔ طے یہ تھا کہ میں ان کے ساتھ ایمسٹرڈیم جا کے اپنے دوست شمعون سلیم کو سرپرائز دوں گا۔ فاروقی نے کہا، میں انہیں فون تو کر لوں۔ فون کیا تو شمعون نے ملنے سے معذرت کی۔ فون کے مائیک پہ ہاتھ رکھے، میری جانب مڑ کر جس طرح انہوں نے اپنی موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی، بڑی بڑی دکھائی دیتی متحیر ہلکے بھورے قرنیہ والی آنکھیں پھیلا کے کہا تھا، ”ارے وہ تو ملنے سے ہی انکار کر رہے ہیں، آپ کیا خاک انہیں سرپرائز دے سکیں گے“ جسے سننا ہی میرے لیے سرپرائز تھا جس پہ میں ہنس پڑا تھا۔

ایمسٹرڈیم جانے کا تو پتہ کٹ گیا تھا جبکہ خالد حمید فاروقی کو اس روز خاقان مرزا اور ان کے کنبے کو اپنی گاڑی میں برسلز گھمانا اور اگلے روز یعنی اتوار کو پیرس دکھانے لے جانا تھا۔ چنانچہ پہلے تو وہ مجھے اپنے گھر لے گئے جہاں بھابی یعنی خاقان مرزا کی اہلیہ نے ہمیں بھرپور ناشتہ دیا، فاروقی کے بیوی بچے ننہال پولینڈ گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد لاؤنج میں بیٹھ کر وہ ہم سے نستعلیق انداز میں بات چیت کرنے لگے۔

بتایا کہ عمران ثاقب چوہدری، جن کے ذمہ وہ رات ہی لگا چکے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو واٹر لو دکھا لانا اور لوٹ کر برسلز گھما دینا، ایک پڑھی لکھی بے سہارا خاتون کو لے آئے کہ انہیں اپنے ہاں رکھ لیں کیونکہ بیگم فاروقی نے ایک تین منزلہ گھر خریدا ہوا تھا جہاں برسلز میں مقیم دوست یا باہر سے آنے والے اکثر آیا کرتے تھے۔

” تو بھئی ہم نے انہیں رہنے دیا“ خالد بھائی بتانے لگے ”وہ خاتون کچھ عجیب تھیں۔ روز کوئی بکھیڑا کھڑا کیے رکھتیں، ایک روز جب میری بیگم ان سے خفا ہوئیں تو وہ خاتون مجھ سے کہنے لگیں کہ آپ نے اس موٹی عورت کو اپنے گھر کیوں رکھا ہوا ہے“ ۔

پہلے تو ہمیں سمجھ نہ آئی پھر وہ عینک کے شیشوں کے پیچھے آنکھیں پھیلا کے بولے، ”ہم حیران ہوئے کہ ارے ہمارے ہی گھر میں ہمارے ہی سامنے ہماری ہی بیگم کو موٹی کہہ رہی ہیں“ اس سے پہلے کہ میرا قہقہہ گونجتا، خاقان مرزا کی پندرہ سالہ بیٹی ہنستے ہنستے جس پلنگ پہ بیٹھی تھی اسی پہ پیچھے گر گئی، میں زور سے ہنسا، خاقان مسکرائے تو خالد حمید فاروقی خود بھی ہنسنے ہوئے کہا، ”ہم نے انہیں کہا ارے بھئی ہم نے انہیں نہیں بلکہ انہوں نے ہمیں اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ “ یہ کہتے ہوئے، کھل کے ہنسے تھے۔

میں چوہدری صاحب کے ساتھ واٹر لو ہو آنے کے بعد برسلز میں ان کی ماہی خوری کی دعوت کھا کر ان کے ساتھ برسلز میں پاکستانی پریس کلب چلا گیا جہاں خالد بھی پہنچ گئے اور رات کو مجھے قیام کی خاطر اپنے گھر لے گئے۔

اگلے روز وہ پیرس گئے تو میں چوہدری صاحب کے ہمراہ ہیگ، ہالینڈ میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک محفل میں شریک ہونے چلا گیا، جس کی ہدایت لامحالہ انہوں نے ہی چوہدری صاحب کو دی ہوگی۔ اس محفل میں میرے ایک قدیمی دوست، ملتان سے ایک زمانے میں پی پی پی کی ایم پی اے حسینہ بیگم کے بیٹے اور سابق جسٹس فخر النساء بیگم کے بھانجے عبدالجبار بھٹی سے ایک طویل عرصہ کے بعد اتفاقی ملاقات بھی ہوئی۔

خاقان مرزا اسی رات فیملی کے ساتھ برطانیہ چلے گئے تو اگلے روز کا آدھا دن میرا بھائی خالد حمید فاروقی کے ساتھ گزرا جس دوران وہ مجھے یورو پارلیمنٹ دکھانے لے گئے اور مجھے میرے کہنے پر ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایک شیونگ برش خرید کے دیا، جو دو ہفتہ پہلے ہی میں بونیر کے گاؤں پیر بابا بٹئی بھول آیا ہوں۔ لندن کے لیے ریل چڑھاتے ہوئے میں نے انہیں برسلز لندن ریل ٹکٹ، جو وہ پہلے سے خرید چکے تھے، کے پیسے ادا کرنا چاہے تو انہوں نے نہ صرف لینے سے یکسر انکار کیا بلکہ برا ماننے لگے جس پہ میں نے معذرت کی۔

خالد بھائی سے فون پہ اکثر رابطہ ہوتا۔ وہ طویل گفتگو کرنے کے عادی تھے جس سے میں اکتا جاتا چنانچہ کسی طرح گفتگو تمام کر دیتا مگر فروری کے آخر میں کیف سے کی گئی ان کی پوری گفتگو سنتا کیونکہ مجھے وہ، ایسی باتیں بتاتے جو پالیسی اور پابندیوں کے باعث وہ جیو پہ من و عن رپورٹ نہیں کر سکتے تھے جیسے انہوں نے بتایا کہ ہم سب غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کو کیف کے ایک ہی ہوٹل میں منتقل کر دیا ہے جو یوکرین کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور خفیہ ایجنسی کے دفاتر کے بیچ ہے، ”ارے یہ گدھے (یوکرینی حکام) ہمیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سارا جھوٹ بولتے ہیں جو سارے ہی غیر ملکی نمائندے جانتے اور سمجھتے ہیں مگر ہمیں وہی رپورٹ کرنا پڑتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ میری تو اس دروغ گوئی پر یوکرین کے وزیردفاع سے مڈبھیڑ بھی ہوئی“ ۔

سچ سے گریز کی مجبوری حساس اور سچے انسان کے دل کو لا محالہ متاثر کرتی ہے یوں ہمارے مخلص انسان دوست بھرپور انسان صحافی دوست کا دل، رات برسلز کے مرکز میں پیدل چلنے کے دوران چلتے چلتے یک لخت رک گیا اور روشن ستارہ بجھ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments