گمراہی کا تسلسل


یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی حاکم کی کامیابی (ملک سنوارنے کے حوالے سے ) کا پیمانہ کیا ہو گا؟ کیا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے تبصروں تجزیوں اور خبروں سے کامیابی و کامرانی و ترقی و خوشحالی کا سراغ ملے گا یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں سے حکومتوں کی کارکردگی کا پتہ لگے گا؟ در حقیقت مملکت میں انصاف کا قائم ہی ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعے حکومت کی کارکردگی کو پرکھا جا سکتا ہے۔

اصول انصاف کا پھیلاؤ بہت وسیع ہے، اصول انصاف بہترین حکمرانی کے ہر ایک امر سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انصاف و عدل ہی اچھی حکمرانی کا ناگزیر و اولین و کلیدی اصول ہے تو ہمیں پہلے انصاف ہو تا کیا ہے یہ سمجھنا پڑے گا۔ انصاف کا معنی توازن ہے اور نا انصافی توازن کا بگڑنا ہے جو حکومتیں ملک میں توازن قائم کرتی ہیں۔ وہ با انصاف حکومتیں کہلاتی ہیں۔ جس طرح جسم مختلف اعضا میں متقسم ہو تا ہے اسی طرح معاشرہ بھی مختلف طبقات میں بٹا ہوتا ہے اور اگر جسمانی اعضا کے درمیان توازن قائم نہ رہے تو نظام جسمانی ابتری و بگاڑ کی طرف رخ کر لیتا ہے اسی طرح معاشرتی طبقات کے درمیان توازن قائم نہ رہے تو پھر ظلمت کے اندھیرے پھوٹتے ہیں جو مکمل تباہی پر منتج ہوتے ہیں۔

ریاست میں توازن اس وقت قائم ہوتا ہے جب ریاست تمام معاشرتی و سماجی و مذہبی و اکثریتی و اقلیتی و کمزور و طاقتور۔ غرض ہر طبقے کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ ریاست رعایا کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے لیکن اگر ریاست خود لوگوں کے حقوق کی پامالی شروع کردے، اگر ریاست خود ہی لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا شروع کردے اور اگر ریاست خود اپنا سارا وزن ایک طبقے کے پلڑے میں ڈال دے تو پھر توازن بگڑ جاتا ہے اور ریاست اپنے بنیادی مقصد یعنی عام و خاص لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے سے بھٹک جاتی ہے۔

ریاست کی بقا توازن و انصاف پر منحصر ہے اور توازن عوام و الناس کے حقوق و ضروریات پر پہرا دینے سے قائم ہو تا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ریاست اس بنیادی اصول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے اور ترقی و کامرانی و خوشحالی کی منازل بھی طے کرتی رہے۔ جب کوئی شے اپنی بقا کے راستے سے ہٹتی ہے تو وہ لازما ہستی سے نیستی کی طرف سفر شروع کر دیتی ہے، سانس لینا ہماری بقا کا ایک بنیادی و کلیدی ضابطہ ہے لیکن اگر ہم دم سادھ لیں تو بڑی تیزی کے ساتھ ہمارا الٹا سفر ہستی سے نیستی کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔

جو ریاست اپنے زعم میں نا انصافی و عدم تعادل پر کھڑی ہوتی ہے وہ ہمیشہ بقا سے فنا کی طرف لڑھک رہی ہوتی ہے کیونکہ یہ قانون قدرت ہے۔ اس الٹے سفر کے تسلسل میں جعل ساز و دغا باز حاکم آتے ہیں جو عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور گمراہ ہمیشہ کوئی خوبصورت شے دکھا کر کیا جاتا ہے۔ کوئی روٹی کپڑا اور چھت دور سے دکھا کر گمراہ کرتا ہے تو کوئی حقیقی آزادی کے جعلی جلوے دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔ گمراہی کا یہ تسلسل نا انصافی و عدم تعادل پر کھڑی ریاست کی عمارت کے حصوں کو مسمار کرتا چلا جاتا ہے۔

گمراہی کے تسلسل میں شدت تب آتی ہے جب عام و خاص لوگوں کا ایک بہت بڑا حصہ توہم و فریب کے پیچھے چل پڑتا ہے اور نیستی کی طرف الٹے سفر میں شدت تب آتی ہے جب حکمت و بصیرت ناپید ہو جاتی ہے، دلیل و منطق ٹکے ٹوکری ہو جاتے ہیں اور باشعور ہونے کے نام پر جاہلیت و حماقتوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور جہاں حکمت ناپید ہو جائے تو وہاں ایک توہم پوری ریاست کو زمین بوس کر سکتا ہے۔

اب ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ عدم تعادل پر کھڑی عمارت کی ایک سچا لیڈر مرمت بھی تو کر سکتا ہے۔ عدم تعادل کے نظام میں سے کوئی مسیحا سامنے آ کر گمراہی کا تسلسل توڑ بھی سکتا ہے۔ عمارت کو مکمل نیست و نابود ہونے سے بچایا بھی تو جا سکتا ہے۔

ایسا بالکل ممکن ہے کہ ایک سچا و مخلص لیڈر نا انصافی و عدم تعادل کی شکار ریاست کے اندر گمراہی کے تسلسل کو توڑ کر۔ اسے توازن کی راہ پر گامزن کردے لیکن جس طرح لذیذ پھل کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح سچے لیڈر کی بھی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں۔ سچا لیڈر عہد شکنی نہیں کرتا اور چونکہ وہ عہد شکنی سے پرہیز کرتا ہے اس لیے وہ سوچ سمجھ اور تول کر بولتا ہے اور اس کے قول اور عمل میں یکجائی پائی جاتی ہے۔ سچا لیڈر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتا ہے اور غلط فیصلوں کے نتائج کا ذمہ دار اپنی ذات کو ٹھہراتا ہے اس لیے وہ اپنی شکست بھی کھلے دل سے قبول کر لیتا ہے۔

سچا لیڈر کبھی بھی عوام کو ایسے انقلاب کی طرف نہیں ہانکتا جہاں پر عوام کے جسمانی و معاشی و سماجی نقصانات کے قوی اندیشے پائے جاتے ہوں۔ سچا لیڈر عوام کو سائبان کی طرف دھکیلتا ہے اور خود تپتی دھوپ میں جلتا ہے۔ سچے لیڈر کی شخصیت تعادل و اعتدال کا عکس ہوتی ہے اس لیے وہ گمراہی کے تسلسل کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر بے انصاف ریاست کو ایسا سچا لیڈر نصیب نہ ہو جو عدل قائم کر کے گمراہی کے تسلسل کو توڑ ڈالے تو پھر اس ٹیڑھی عمارت کا مسمار ہونا مقدر ہو تا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments