ہو جو کج فہمی تو آسیب کی ضرورت کیا


منیر نیازی صاحب نے کہا تھا کہ منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے؟ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ پر میں سوچتا ہوں جہاں آسیب کا سایہ ہو وہاں سفر تیز بھی ہو جائے تو منزل کب آتی ہے؟ بھلا دائروں میں چلنے سے بھی منزل ملی ہے کبھی؟ پچھتر سال بیت گئے پر پوری مملکت کبھی تیز تو کبھی دھیمی ایک ہی دائرے میں کولہو کے بیل کی مانند گھومے جا رہی ہے۔ ہر نفس آنکھوں پر آسیب کی کالی پٹی بندھی ہوئی ہے۔

کوئی تیار نہیں کہ ایک لحظہ تھوڑی سی ہمت جٹا کر پٹی ہٹا کر بھی منظر دیکھ لے۔ بس یقین ہے تو چند آشنا آوازوں پر جو صدا دیے جا رہے ہیں کہ بس چلتے جاؤ اور ویسا کرتے جاؤ جیسا کہا جا رہا ہے، حوصلہ رکھو منزل آئے گی۔ اور خبردار آنکھوں سے پٹی نہ ہٹانا نہیں تو پتھر کے ہو جاؤ گے۔ اور خلق ہے کہ بت بننے سے بچنے کے لئے خود کو روبوٹ بنا دیا ہے۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ روبوٹ وہی کرتا ہے جو اس کے سسٹم میں فیڈ کر دیا جائے۔

نہ جانے کیوں آج کل کوئی بھی بات کہو یا لکھو تو وہ جن کی آنکھیں جہل کے آسیب نے اندھی کی ہوئی ہیں وہ اگر ان الفاظ میں آشنا آوازوں کی تاثیر نہیں پاتے تو چاہے بات کتنی ہی معقول کیوں نہ ہو سرے سے رد کر دیتے ہیں۔

اردو کی مقامی اخباروں میں اکثر ایسی خبریں لگتی تھیں اور شاید اب بھی لگتی ہیں کہ آشنا سے مل کر بیوی نے شوہر کو قتل کر دیا۔ بات تو اب بھی وہی ہے بس اب شوہر کی جگہ ملک لکھ دیا جائے تو بات زیادہ وزنی ہو جائے گی۔ سب اپنے اپنے آشناؤں سے مل کر ملک کی ناؤ اچھے سے ڈبونے کا انتظام کر رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ کہتے ہیں جب آپ جانتے ہوں کہ لوگوں کا آپ کی سنجیدہ بات سننے اور سمجھنے کا کوئی موڈ نہیں، تو اپنا وقت اور الفاظ ان پر ضائع نہ کریں اور بنداس ہو کر ٹرول کریں۔ اور حالات سے محظوظ ہونا سیکھیں۔ پر میرے جیسا سڑیل مزاج کیا کرے کہ جس کے منہ کو لگی ہوئی ہے اور آسانی سے چھٹتی بھی نہیں۔

پر اب تو واقعتا کوئی بات لکھو تو جن کو پسند نہ آئے وہ دانستہ خود کو اس میں فٹ کر کے اپنی صلاحیتوں کو یوں مغلظات تخلیق کرنے کرنے کے لئے مجتمع کرتے ہیں کہ بندے کی طبیعت فٹ ہوجاتی ہے۔ آپ پر ہر روز یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ آپ کسی پارٹی کے زرخرید ہیں جو یقیناً آپ کی بات سے خفا ہونے والوں کی مخالف پارٹی ہوتی ہے۔

یہ ملک تو پہلے ہی سوال کرنے اور سوال اٹھانے والوں کے لئے علاقہ ممنوعہ تھا پر اب خود سے سوچنے والوں کے لئے بھی جہنم بنتا جا رہا ہے۔ عدم برداشت قصہ پارینہ ہوئی اور اس کی جگہ وحشی پنے نے لے لی ہے۔ بات گلیار پن سے بڑھ کر قتل و غارت گری پہ آ ٹھہری ہے۔ اور وجہ قتل محض یہ ٹھہری کہ میرے رہبر کی مخالفت کیوں کی۔

میں نے ہمیشہ یہ بات کہی اور اس کی ہر ممکن تائید کرتا آیا ہوں کہ ہمارے ملک کی خوبصورتی اس کی کثیر قومیت، ست رنگی ثقافتی اسلوب اور تنوع میں ہیں۔ جس کی پائیداری باہمی وقار، عزت اور درگزر اور رواداری میں ہے۔ پر جو روش اس بار اپنائی گئی ہے۔ وہ اس گلدستے پر نیل پھیرنے کے برابر ہے۔ جس سے یہ گلدستہ یک رنگ تو شاید نہ ہو پر اس پر نیل کے بدنما دھبے ضرور پڑیں گے۔

یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ جس جماعت نے تمام تر امداد کے بعد جب 2018 کا الیکشن جیتا تو کثیر رائے دہی کے باوجود 32 ٪ فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔ مطلب باقی مخالفین 68 ٪ فیصد ووٹ پڑے۔ اب جب چور چور کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اس کے لئے محل و موقع کی کوئی قید خاطر میں نہیں لائی جاتی تو کیا یہ گالی ان 68 ٪ فیصد عوام کو بھی نہیں دی جاتی جنہوں نے اس خاص جماعت کو ووٹ نہیں دیے؟

اس سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اب اس کی روک تھام بھی اسی اسلوب پر کی جا رہی ہے جس پر پہلے ہی پورے ملک میں طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ اس عالم میں مقتدر حلقے غیرجانبدار کھڑے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ کسی غیر آئینی قدم سے بھی اجتناب لازم ہے۔ یہ وقت ہے کہ سیاستدان مل کر اس ملک کو کسی بھی فتنے کی طرف جانے سے روکنے کے لئے افہام و تفہیم سے کام لیں۔

جس نہج پر ہم پہنچ چکے ہیں یہاں ہر صاحب فہم کو بہرحال یہ بات سمجھنی ہوگی کہ حکومتیں اور سیاستدان آتے جاتے رہیں گے پر یہ ملک ہمیشہ رہنا ہے اس لئے اپنے آپ کو اور اس ملک کو عارضی لوگوں کے لئے دائمی منافرت میں مبتلا نہ کریں۔ کیونکہ یہ ملک اب کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments