دانتوں کے درمیان گوشت کا ٹکڑا


روزمرہ زندگی میں جب پہلی بار کسی سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کے لباس بیٹھنے کے انداز اور گفتگو کے آداب سے اس کے مہذب یا غیر مہذب ہونے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے نیو کیسل یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر میگی ٹالر مین کے مطابق دنیا میں ”بنی نوع انسان قوت گفتار کی بدولت تمام جانوروں میں افضل مقام رکھتا ہے۔ جبکہ دیگر مخلوقات پیغام رسانی کا کام آوازوں سے لیتے ہیں“ ۔

بات کرنے کی صلاحیت انسانی ارتقا کے عمل میں اہم مرحلہ تصور کیا جاتا ہے جس نے انسان کو دوسری مخلوقات سے نمایاں مقام دیا۔ اس تبدیلی نے زندگی کے رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالے۔ ابتدا میں شاید انسان نے ایک دوسرے کی مدد حاصل کرنے اور بھوک سے بچنے کے لیے حکمت عملی کے طور پر زبان کا سہارا لیا۔ برطانیہ کی کمیبرج یونیورسٹی میں ارتقاً اور انتھروپولوجی کے پروفیسر رابرٹ فولی کے بقول زبان ان چند پیچیدہ چیزوں میں سے ایک ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے۔

اندازاً دنیا میں چھ ہزار پانچ سو زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ماہرین اس بات کا پتہ نہیں لگا پائے کہ کون سی زبان سب سے قدیم ہے۔ زبان ہمارے جذبات کی عکاسی کرتی ہے جسے ہم صدمے، حیرت، خوشی، مذاق یا جارحیت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کا ادراک کسی مخصوص سماج، لسانی گروہ، معاشرے، ملک یا مذہب کے اندر ہی ہوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ صرف ایک گوشت کا ٹکڑا ہے مگر اس کے ہلنے سے معاشروں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں

زبان کی مختلف اقسام ہیں مثلاً نابینا افراد بریل کوڈ کے ذریعے ابھرے الفاظ کو انگلیوں سے محسوس کر کے پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں جسے پندرہ برس کی عمر میں فرانسیسی شخص لوئس بریل نے ایجاد کیا۔ گونگے اور بہرے افراد کے لیے اشاروں کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ویڈیوز کے ذریعے اس کو زیادہ سہل بنا دیا ہے اب ان افراد کو مخصوص کلبوں یا کمیونٹی میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ وہ باآسانی اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔

زبان کی ایک اور قسم گالی گلوچ یا مغلظات کی زبان ہے سویرنگ از گڈ فار یو کی مصنفہ ڈاکٹر ایما برن کہتی ہیں کہ ”مہذب یا غیر مہذب زبان کا تعلق کسی خاص ثقافت میں ممنوع اور غیر ممنوع باتوں کے ساتھ جڑا ہے۔ مثلاً بعض ثقافتوں میں جسم کے اعضا کا ذکر جذبات مجروح کرتا ہے بعض میں جانوروں کے نام اور بعض معاشروں میں کسی جسمانی فعل سے۔ گالی گلوچ جسے دور جدید میں نفرت، تعصب اور مخالف جنس کو زچ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گالی گلوچ جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ایک بنیادی عنصر ہے جو معاشرے میں موجود ممنوعات کو استعمال کر کے کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا استعمال ہم کبھی خاص مواقع پر نہیں کرتے مثلاً نوکری کے انٹرویو، رشتہ طے کرتے وقت یا پھر کسی کو پہلی مرتبہ ملتے وقت اپنی ذات کا اچھا تاثر چھوڑنا مقصود ہوتا ہے۔

پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر سال اندازہً ایک ہزار خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جہاں عورت کو غیرت اور عزت کے نام پر چار دیواری میں محدود کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں عورت مارچ میں عورتوں کے حقوق کے لیے لگے نعروں کو بے حیائی، بے شرمی اور بے رواروی قرار دے کر عورتوں کو خاموش کرایا جاتا ہے اسی معاشرے میں غصے اور لڑائی جھگڑے میں مخالف کو زچ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے ماں اور بہن کی گالی دی جاتی ہے۔ ہمسایہ ملک میں دی گالی پراجیکٹ سے منسلک نیہا ٹھاکر نے جب گالی پر نوجوانوں سے استفسار کیا تو پیشتر کا ردعمل تھا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے یہ تو ازراہ مذاق دی جاتی ہیں۔

نیہا کے مطابق ”آج کل کے ماحول میں غصے اور گالی دینے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست، مہنگائی، سفر میں دشواریاں، نوکری نہ ملنا، حکومت سے ناراضگی، نفسیاتی مسائل، چڑچڑا پن، معاشرتی عدم توازن، اور رشتوں میں دوریاں شامل ہیں“ ۔

سیاست میں نظریات اور منشور کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا ہر سیاسی پارٹی کا مقصد رہا ہے تاکہ لوگ انہیں اپنا لیڈر چنیں مگر صد افسوس کہ اب اس میں بھی مہذب زبان کی جگہ گالیوں، الزامات اور فحش سوشل میڈیا ٹرینڈز نے لے لیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں مذہبی عدم برداشت، حکومت کی جانب سے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کی حوصلہ افزائی، عوامی مقامات پر منافرانہ زبان کا استعمال، سرکار اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے حوصلہ شکنی نہ کرنے کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔

جن کا بد استعمال ذاتی چپقلش، بدلہ لینے کے لیے ہو رہا ہے جس کا نشانہ بے گناہ اکثریتی اور اقلیتی دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے بن رہے ہیں۔ لوگ ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی پر بھی تکفیر کا الزام لگا کر یا غیرت کے نام پر بنا تفتیش یا تحقیق کے انسانی جان لے لیں تو اس سے بتیس دانتوں میں رکھے اس گوشت کے ٹکڑے کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

جس کے منفی اثرات ہر جانب نظر آ رہے ہیں جس کی ایک مثال مسجد نبوی میں لوگوں کا پاکستانی سیاستدانوں کو چور چور کہہ کر مسجد کے تقدس کو مجروح کرنا، سابقہ وزیراعظم کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کی بجائے، اس کے بیانیہ پر یقین کر کے دوسرے سیاستدانوں کو غدار یا چور پکارنا ہماری سوچ کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب سیاستداں خود اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ سیاستدان عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انتقامی کارروائیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور عوام کو پنا ہم خیال بنانے کے لیے فحش گفتگو کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ مثلاً بلاول بھٹو کو مونث کہہ کر مخاطب کرنا حقیقتاً عورت کی تذلیل کرنا ہے یعنی جس کو عزت اور غیرت کے نام پر قتل کرنا فخر سمجھا جاتا ہے اسی کو مخالف کو طیش دلانے کے لیے استعمال کی جاتا ہے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 3 دسمبر 2021 ء تک کم از کم 1949 افراد کو تکفیر کے الزامات طویل مدت تک چلنے والے مقدمات، جیلوں اور ہجرت کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 84 لوگوں کو تکفیر کے الزامات کے ناتے قتل کر دیا گیا۔

گالیوں میں عورت کا نام جوڑا جانا:

ماہر معاشیات اور پروفیسر بدری نارین کے مطابق زمانہ قدیم کے معاشرے یا قبائل میں خواتین کا مقام اونچا اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا جسے دھیرے دھیرے چار دیواری تک محدود اور اس کی حیثیت کو کمزور کیا گیا ۔ جس سے اس کی حیثیت دوسرے درجے کی ہو گئی اور دو مردوں کی لڑائی میں بدلہ لینے کے لیے عورت کو اٹھوانا یا بے عزت کرنا شامل ہو گیا

ہمیں اپنے معاشرے کو مہذب بنانے کے لیے ایسے قوانین اور تعلیمی نصاب میں ایسا مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں رواداری، مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں جبکہ حکومت ایسے قوانین اور پالیسیوں میں ترامیم کرے جن سے ہر پاکستانی شہری کو تحفظ حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).