ذرا ٹھہریں! تھوڑا سانس ہلکا کریں


ذرا ٹھہریں! رک جائیں، تھوڑا دم لیں، سانس ہلکا کریں، کچھ وقت آرام کر لیں، دم بھر کے لیے سکون کریں اور پھر چاہے جدھر کمر بستہ ہونا ہو جائیں. ایسی کیا جلدی، ایسی کیا تیزی، اتنی بھی کیا عجلت، آخر کو منزل پہنچنا ہی ہے اور منزل بھی تو اپنی ہی ہے. اپنے ہی خواب ہیں، سفر کا لطف لیتے ہوئے پورے کر لیے جائیں تو کیا حرج ہے، کیا ہی برائی ہے اگر اپنے آپ کو تھوڑا سستا لینے کا وقت دے دیا جائے.
دورِ حاضر میں تھکاوٹ منزل تک نہ پہنچ پانے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جی ہاں! میں ذہنی تھکاوٹ کی بات کر رہا ہوں. جسمانی تھکاوٹ تو پھر بھی کچھ نہ کچھ، جیسے تیسے کم ہو جاتی ہے لیکن ذہنی تھکاوٹ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور مسئلہ یہ نہیں کہ تھکاوٹ کم نہیں ہو پاتی، مسئلہ یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو ادراک ہی نہیں کہ ذہنی تھکاوٹ بھی کوئی شے ہے اور اس کی روک تھام بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ منزل پہ پہنچنا یا پھر کسی خواب کی تعبیر. اوپر سے سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی تعلیمی سلسلے سے وابستہ ہیں اور مسلسل مصروف عمل ہیں تو پھر تو یہ تھکاوٹ دن دگنی رات چگنی ترقی یوں کرتی ہے کہ اگر آپ مطلوبہ اہداف حاصل کر پا رہے ہیں تو پھر مشکل یہ کہ اب آگے کیا، اگر ہدف کے تعاقب میں پیچھے رہ گئے تو پھر تو بس ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیے.  میٹرک میں دباؤ یہ کہ نمبر آنے ہی چاہیئے یہ الگ بحث کہ مضامین اور مستقبل کے تعین میں بچے کی اپنی مرضی کتنی شامل ہوتی ہے پر نمبر ہر صورت آنے چاہئیں!
بڑی مضحکہ خیز بھیڑ چال ہے کہ بھلا یہ آنے چاہئیں کیا ہوا! انسانی دماغ ہے یا کوئی ڈجیٹل ڈیوائس کہ لوگارتھم لگا دیا تو اب نتائج خود بخود نکل آئیں گے. ارے بھائی انسانی دماغ ہے جو فطری طور پر آزادانہ سوچنے پہ یقین رکھتا ہے اور اپنی منزلوں کا ادراک کرنا بخوبی جانتا ہے. خیر میٹرک سے نکلے تو پھر ہوتا ہے حق و باطل کا معرکہ یعنی میڈیکل اور انجینئرنگ، اگر داخلہ ہوا تو بھی مصبیت نہ ہوا تو معاشرتی دھتکار سامنے ہو گی. خیر انسان کچی عمر میں ہوتا ہے گرتے پڑتے اپنی روح پہ یہ وار سہتے سہتے آگے بڑھ جاتا ہے اگر توآگے  بڑھ جائے وگرنہ خودکشی یا پھر معاشرے میں وقوع پذیر ہوتی بے شمار انجان  کہانیوں میں سے ایک مزید کہانی میں اضافہ، اور اگر دل کو سمجھا بجھا کر آگے کسی راستے کا تعین کر ہی لیا جائے تو پھر شروع ہوتی ہے اعصاب شکن مقابلے کی دوڑ.
آپ ابھی گریجویشن کے مراحل میں کسی طرح سے اپنے پاؤں اٹکانے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہر ملنے والا شخص خواہ خاندان کا ہو یا پھر یونہی کسی چلتے پھرتے سے تعارف ہو جائے، بے شمار سوالات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ کیا سکوپ ہے؟ نوکری کہاں ملے گی یعنی کس ادارے میں؟ تنخواہ کتنی ہو گی؟ کب ملے گی؟ اور کتنی دیر ہے ڈگری ختم ہونے میں؟ وغیرہ وغیرہ جیسے بے تکے نا ختم ہونے والے سوالات جو پہلے سے حادثات کا شکار دماغ کو ناامیدی و ہیجان میں دھیکلنے کا کام کرتے ہیں. ارے بھائی! آپ کو اس سے کیا لینا دینا کہ بندے کی ڈگری کب ختم ہو گی، نوکری کب اور کیسے ملے گی، کتنا پیسا ملے گا وغیرہ وغیرہ. اس طرح کے کئ سوالات جو ذہن میں گردش کرتے ہوئے ناسور بنتے ہیں اور مسلسل ذہنی آزمائش کا سامان کیے رکھتے ہیں. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی ہی ڈگری، زندگی سے بلا وجہ تنگ آ جاتا ہے، مزاج میں چڑ چڑا پن، ہر وقت تھکاوٹ اور یہی سلسلہ اپنے ہی خوابوں سے دور کر کے تعین کی ہوئ منزل سے بھٹکا دیتا ہے.
ہمیں پہلے خود سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی ہماری اپنی ہے، اس زندگی میں دیکھے ہوئے خواب اگر ہمارے اپنے نہیں تو پہلے انھیں اپنانا ہو گا اور پھر جب وہ اپنے ہو جائیں تو پھر بغیر کسی بیرونی دباؤ کے، سفر کا لطف اٹھاتے ہوئے منزل کی طرف گامزن ہوں. اگر کہیں تھک جائیں تو تھوڑا آرام کر لیں، سکون کا سانس لیں، جلدی کوئی نہیں منزل تو اپنی ہے، ایک دن پہنچ ہی جانا ہے. اونچے خواب ضرور دیکھیں لیکن زندگی میں ٹھہراؤ کو یقینی بنائیں، مزاج میں عجلت کی بجائے تحمل سے کام لیں. یہ سوچ کر سفر پہ نکلیں کہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے تاخیر بھی ہو جاۓ یا منزل تک نہ پہنچ سکیں لیکن پھر کیا کوئی برائی نہیں، تھوڑا سا وقت نکال کر دوبارہ سے اپنی سمت کا تعین کریں اور پھر سے رختِ سفر ہو جائیں.  آپ کے ارد گرد لوگ سوال کرتے رہیں گے، گریجویشن کے بعد بھی زندگی میں اور بہت سارے محاذ کھلیں گے، شادی، نوکری، سکالرشپ، مقابلے کے امتحان اور اس جیسے کوئی دوسرے مسائل آپ کے خوابوں کے راہ میں حائل ہوں گے. لوگ ہر جگہ، ہر وقت آپ پہ سوالوں کے نشتر چھوڑتے رہیں گے لیکن آپ کو ڈٹے رہنا ہے اور وہ ایک ہی طرح سے ممکن ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو ذہنی تھکاوٹ کا کبھی شکار نہیں ہونے دینا. کبھی بھی مایوسی، ناامیدی کی بھنک ہو تو سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور کسی سکون کی جگہ ڈھونڈ کر کچھ دیر آرام کریں اور وقت آنے پہ آٹھ کھڑے ہوں.
صحت مند معاشرے ذہنی تھکاوٹ جیسے باریک مسائل پہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ سکول کی سطح پہ باقاعدہ ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں چونکہ الٹی گنگا بہتی ہے اس لیے ادھر بچوں کے اپنے بالغ ہو جانے کے بعد بھی انہیں ذہنی آزمائش میں مبتلا یوں رکھا جاتا ہے کہ ہر وقت آڑے ٹیڑھے سوالات جیسے کپڑے اس رنگ کے پہننے ہیں، جوتا یہ لینا چاہیے تمھیں، جب دل آیا اسکے موبائل کے ان-باکس میں گھس گۓ. کچھ بھی آناب شباب کہیں بھی بک دیا! ارے بھائی کوئی بندے کی انفرادیت بھی ہوتی ہے پرائیویٹ سپیس نام کی بھی کوئی شے ہے. ہر وقت بن بلائے مہمان کی طرح سوالوں کے ترشول لیے کسی کے اندر گھسے رہنا کہاں کی تہذیب اور تمیز ہے. آج ہمیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی اس ذہنی اذیت کے خلاف بند باندھنے ہوں گے اور اس محاذ کے سب سے پہلے سپاہی ہم خود ہیں اور پھر ہمارے حلقہ وساطت میں موجود لوگ. لوگوں کو سوال کرنے کی تمیز سکھانا ہو گی، انہیں دوسروں کی پرائیویٹ سپیس کا مطلب سمجھنا نا ہو گا. انھیں بتانا ہو گا کہ کسی سے اس کے مستقبل، نوکری، شادی یا اس طرح کے دیگر امور پہ گفتگو سے پہلے جان لیں کہ اگلا بندہ اس پہ بات کرنا بھی چاہ رہا ہے یا نہیں!
کام ذرا مشکل ہے لیکن کوئی نہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments