تھوڑا تھوڑا مزا تو آ رہا ہو گا


پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات نے فنون لطیفہ کی تمام اصناف کو ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے، ٹی وی، فلم اور تھیٹر (خواہ وہ کمرشل ہو یا متوازی) سیاسی طنزیہ جملوں کے بغیر نامکمل سا لگتا ہے۔

پاکستان کا، خاص طور پر پنجاب کا کمرشل تھیٹر سنجیدہ و غیر سنجیدہ نقاد کی ہمیشہ ”شست“ پر رہا ہے، کہنے اور لکھنے کو اگر کچھ نہ ملا تو کمرشل تھیٹر میں موجود ولگیرٹی اور رقص پر تو جب چاہے جو چاہے لکھا جا سکتا ہے،

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے کمرشل تھیٹر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے پنجابی سمجھنے والوں کے لیے بہت بڑے بڑے اسٹارز پیدا کیے ہیں، ان لوگوں کے برجستہ جملوں میں بعض اوقات گہری وزڈم چھپی ملتی ہے، جو ان لوگوں کی معاشرے پر گہری نظر اور حساسیت کی عکاس ہے۔

ایک دن یوٹیوب پر اچانک ایک پنجابی ڈرامہ آپشنز میں نظر آیا، میں نے کلک کیا، مزاح کے ساتھ اس ڈرامے کی سٹوری لائن نے بھی مجھے جکڑ لیا،

ایک مالک ہے جس کا ایک نوکر ہے جو پرانی وضع قطع کا دیہاتی ادھیڑ عمر شخص ہے، مالک اس پر بہت بھروسا کرتا ہے اور نوکر کو بھی مالک کے ساتھ اس مضبوط تعلق پر بڑا ناز ہے، ایک دن کسی پرانے دوست کی سفارش پر مالک ایک نوجوان کو گھر میں دوسرے نوکر کے طور پر بھرتی کر لیتا ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے مالک کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے، دیکھنے میں خوبصورت، بولنے میں چتر اور پہلے نوکر کی نسبت کچھ پڑھا لکھا بھی،

اب پرانے نوکر کو حسد محسوس ہونا شروع ہوتا ہے، وہ بات بات پر مالک سے اس کی شکایتیں لگاتا ہے، کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں ہے، ڈرامے کرتا ہے، یہ آپ کو ایک دن کوئی نہ کوئی نقصان پہنچائے گا، جھوٹ بولتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن مالک کے سر پر تو اس کا سحر سوار تھا، وہ پرانے نوکر کی ہر بات کو برے طریقے سے نظر انداز کرتا رہا۔

حقیقت میں نیا نوکر کسی مار پر تھا، اور اس نئی نوکری کو ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہا تھا، قصہ مختصر نیا نو کر ایسے ایسے چکر چلا کر فرار ہو جاتا ہے کہ بالآخر مالک اور پرانا نوکر سلاخوں کے پیچھے حوالات میں بیٹھے ہوتے ہیں، اب وہی پرانا ساتھ، دکھ درد اور ایک چھت، پرانے نوکر کو تکلیف بھی ہے اور مالک پر غصہ بھی، اب مالک جب بھی نوکر سے کوئی بات کرتا ہے تو وہ جواب دینے سے پہلے مالک پر فقرہ کستا ہے کہ

”صاحب جی ویسے توہانوں تھوڑا تھوڑا مزہ تے آندا ہو سی“ (صاحب جی ویسے آپ کو تھوڑا تھوڑا مزا تو آ رہا ہو گا ) ۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ پاکستان کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت بچی ہو جسے پاکستان کے مقتدر حلقوں سے شکایت نہیں ہے، وہیں پر اس حقیقت سے بھی روگردانی نہیں کی جا سکتی کہ ان مقتدر حلقوں نے ہمیشہ نئے لوگ آزمائے، ایک سیاسی پارٹی کو چیلنج کرنے کے لئے دوسری سیاسی پارٹی میں خون ڈالا، انتہائی وقتی فائدوں کے لئے بڑے بڑے مونسٹر پیدا کر کے چھوڑ دیے ‏، کوئی اس قابل تھا یا نہیں، اسے اس قابل بنایا گیا، میک اپ اور پروپیگنڈا کر کے۔

مختلف سیاسی پارٹیوں کے ورکرز آپ پر الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان بھر کے بزنسز پر آپ قابض ہیں، سیمنٹ، یوریا، دودھ، کارن فلیکس، بلڈرز اور پھر پراپرٹی بزنس میں تو آپ کا کوئی ثانی ہو ہی نہیں سکتا، اس سے تو آپ کا خاص عشق ہے، آپ کے تمام بڑے رینک کے ریٹائرڈ ہیروز ارب پتی ہیں، پچھلے چند سالوں میں آپ نے کروڑوں روپیہ فلموں اور ڈراموں پر خرچ کیا، صرف اور صرف امیج بلڈنگ کے لئے، لیکن چند ہفتوں میں یہ سب زمین بوس ہو گیا۔

حضور ابھی بھی وقت ہے، کچھ تو اپنے اطوار پر غور کریں، آپ کا وجود اور احترام پاکستان اور قوم کی سالمیت کی ضمانت ہے، نیوٹرل کا راگ الاپنے کی بجائے آئین اور قانون میں بیان کی گئی حدود کا دل و جان سے احترام کریں، آپ کا احترام خودبخود بن جائے گا، خوبصورت ہیرو ہیروئنز کے ساتھ جذباتی ڈرامے اور ترانے بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، لوگ خود آپ کے ترانے گائیں گے۔

ویسے بھی آپ کے تمام سیاسی فیصلے، (خاص طور پر گزشتہ چند دہائیوں میں ) مردم ناشناسی، چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سیاسی طور پر آپ اتنے بھی ذہین نہیں جس کا آپ کو گمان ہو چلا ہے، کون جانے موجودہ حالات میں جب بڑے لیول کی میٹنگز اور رابطے ہوتے ہوں گے تو کس کس کے دل سے یہ آواز نکلتی ہوگی کہ، ”صاحب جی تھوڑا تھوڑا مزہ تے آندا پیا ہوسی ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments