خشک ہوتا ہوا دریائے صداقت دیکھوں


ملک کی سیاست میں قحط الرجال بھی ہے اور قحط صداقت بھی۔ اقدار، روبہ زوال اور دوستیاں اور رشتہ داریاں سیاست کی بھٹی میں جل کر راکھ ہو رہی ہیں۔ نئی حکومت اور نئی اپوزیشن دونوں الزامات کی سیاست کر رہی ہیں۔ اول الذکر کی اب تک کی جو کارکردگی ہے اس سے تو لگتا یہ ہی ہے کہ وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح اپنا وقت تنقید پر ضائع کرتے رہے اور مؤخرالذکر کا دامن کارکردگی کے میدان میں بالکل ہی خالی ہے، لہذا اب اس کی ساری تگ و دو سازش، مداخلت، نیوٹرل کی گردان کرنا رہ گئی ہے۔

تحریک انصاف نے امریکہ کی مخالفت کا نعرہ لگایا تو ہماری بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم کیا مگر شاید وہ یہ پہلو نظر انداز کر گئے کہ تحریک انصاف امریکہ مخالفت نہیں بلکہ وہاں کی برسر اقتدار پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کی مخالف ہے، اسی لیے ٹرمپ کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کے ذریعے کمک بھی پہنچائی، اگر آج ری پبلکن برسر اقتدار ہوتی تو تحریک انصاف کا کم از کم امریکہ مخالفت کا نعرہ نہ ہوتا۔

مولانا مودودی مرحوم نے معیشت پر اپنے ایک مضمون کی ابتداء جن الفاظ سے کی اس کا مفہوم ہے کہ معیشت ہماری زندگی کا ایک جز ہے کل نہیں، مگر ہم نے اسے کل بنا کر ساری تگ دو و کا مرکز بنا دیا ہے اور اس کے باوجود یہ درست ہونے کی بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔ آج ہماری معیشت کیا اور سیاست کیا دونوں ہی کل بن چکی ہیں اور دونوں ہی تنزلی کا شکار بھی۔ ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، دوستوں کے پیغامات، ٹک ٹاک پر بڑے چھوٹے سیاست پر اپنے اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔ مگر اصل مسائل کیا ہیں؟ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ہماری سیاست اور صحافت اس سے لا تعلق ہیں۔

پروفیسر طاہر نعیم ملک سوشل میڈیا پر اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ ”کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیاں نہ تو پڑوسی ملک میں کسانوں کی اپنے حقوق اور معاشی استحصال کے خلاف برپا کی گئی بھرپور تحریک کو کوریج نہیں دے رہا؟ اسی طرح جنوبی ایشیا ہمارے پڑوس میں واقع ملک سری لنکا شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس کو بھی ہم نمایاں انداز میں کور نہیں کر رہے۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ باڈر کے اس پار بھی کسان معاشی استحصال کا شکار ہیں بھارتی پنجاب کے کسانوں کی تحریک کو اجاگر کرنے سے ہمارے کسانوں کو شعور نہ حاصل ہو جائے؟

سری لنکا قرضوں کے بھنور اور گرداب میں ڈوبتا چلا گیا اور محض 46 ارب ڈالر کا مقروض ہونے کے باعث دیوالیہ ہو گیا۔ جب کہ دوسری جانب امریکا کے بزنس ٹائیکون ایلون مسک نے 47 ارب ڈالرز میں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر خریدنے کی پیش کش کردی۔ سری لنکا کو آج کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ آج ان کی حکمران اشرافیہ محفوظ نہیں وزیر اعظم مستعفی ہو گئے۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے وزیروں مشیروں کے گھر بھی محفوظ نہیں۔

ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے، ریاست کمزور ہو کر بکھر رہی ہے۔ سری لنکا کی صورتحال سے ہم عوام کو آگاہ نہیں کر رہے۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ پاکستان کی معیشت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ معیشت قرض میں ڈوب رہی ہے، اشرافیہ کی ٹیکس چوری، پلاٹ اور دیگر مراعات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر حکومت پچھلی حکومت کی نسبت زیادہ قرض لیتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے پاس آئی ایم ایف اور عرب ممالک سے چند ارب ڈالرز قرض مانگنے کے سوا کوئی معاشی حکمت عملی یا معاشی اصلاحات کا ایجنڈا نہیں۔

جو قومیں معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہیں ہوتی ہیں، جن کی معیشت کمزور ہوجاتی ہے ان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی، آزادی اور خودمختاری کا خواب دیکھنا بھی جرم ہے۔ کیونکہ آزاری اور اور خود مختاری کا راستہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی کہ بے وقار آزادی ہم غریب قوموں کے سر پر تاج رکھا ہے اور بیڑیاں ہیں پاؤں میں۔“ ۔

واقعہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ایجنڈے پر مہنگائی، بے روزگاری اور محنت کشوں کے مسائل نہیں ہیں۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ملک سات کروڑ کی تعداد میں محنت کش موجود ہیں جن میں سے 50 فیصد بے روزگار ہیں۔ پاکستان مزدور محاذ جس کی شہرت سوشلزم کے علمبرداروں کی ہے اس کے مرکزی چیئرمین نعیم قریشی اس حوالے سے وضاحت کرتے ہیں کہ سوشلزم صنعتی معاشرے کی سائنس ہے جب کہ ہماری زرعی معیشت ہے، جس میں زمینوں پر قابض جاگیر دار اور قبائلی سردار ہیں۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو زرعی اصلاحات کو متعارف کروانا ہو گا۔ زرعی پیداوار بڑھانے اور معیشت کی ترقی کے لیے یہ ایک بنیادی قدم ہے۔

مگر افسوس کہ حکومت اور اپوزیشن میں غزل اور جواب غزل کا سلسلہ ایک مقابلے کی شکل اختیار کرچکا ہے اور افسوس یہ مقابلہ نظریے اور دلیل کی بجائے الزامات کا ہے۔ ستر کی دہائی میں کی سیاست نظریات کی سیاست تھی جس میں سیاسی فریقین میں سیاسی شعور بھی تھا اور اقدار کا پاس بھی۔ مگر آج ٹیکنا لوجی کا جس قد ر منفی استعمال ہمارے یہاں دیکھا جا رہا ہے اس کا تصور ٹیکنالوجی کے موجد ممالک نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ موجودہ حالات پر احمد فراز مرحوم کے مجموعے ”نابینا شہر میں آئینہ“ میں شامل ان کے کلام کے چند اشعار:

میں تو ہر طرح کے اسباب ہلاکت دیکھوں / اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
وہ جو قاتل تھے وہ عیسا نفسی بیچتے ہیں / وہ جو مجرم ہیں انہیں اہل عدالت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے / اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
کذب کی ریگ رواں یوں ہے کہ اس کے آگے / خشک ہوتا ہوا دریائے صداقت دیکھوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments