امواجِ ثقل، لبرل ازم اور بوسے کی مابعدالطبیعات


اسے ہرگز راقم کا مبنی بر علم حتمی دعویٰ نہ سمجھا جائے لیکن اگر صرف جان لاک ہی کو مثال مان لیا جائے تو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ لبرل از م کے گرد گھومتی اس کی کل فکر میں کون کون سے اہم مابعد الطبیعاتی مفروضے شامل ہیں۔ ان ذہنی میلانات کی بنیاد عیسائیت میں بھی ہے اور لاک کے فلسفہ علم اور انسانی فہم کی ماہیت میں بھی۔ مثال کے طورپر وہ جابجا کلیسا سے اپنے مکالمات میں روحِ انسانی کی نجات کے بارے میں اپنی مذہبی اعتقادات کی بنیادوں پر کچھ نظریہ بندی پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جب وہ روح و بدن کی دوئی کے مابعدالطبیعاتی مفروضے کا اطلاق کلیسا اور ریاست کے متوازی اور جداگانہ اداروں میں کرتا ہے تو ملحدین کے لئے ویسی ہی رواداری کا تقاضا نہیں کرتا کیوں کہ اس کی رائے میں ملحدین سماجی بندھنوں سے آزادی کے باعث افراتفری کا باعث ہیں۔ اس تناظر میں جہاں ہمارے لبرل ازم کی وکالت کرتے دوستوں کو مخصوص سماجی مظاہر کی ذیل میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے، وہیں ہمارے مذہب پسند دوستوں کو اپنی بے جا تکرار کی بجائے آگے بڑھنا چاہیے اور ہمارے سماج میں حریت فکر اور برابری کی بنیاد پر رواداری کو فروغ دینے کی روایت میں ہمارا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ کی نفسیاتی الجھنیں اس حریت ِ فکر کو ’لبرل ازم‘ کہنے میں مانع ہیں۔ آپ بے شک ان فکری زاویوں کو کسی بھی نام سے پکار لیجیے لیکن کم از کم مکالمہ تو آگے بڑھائیے۔ ہمیں بار بار مذہب مخالف اور روایت بیزار کہنے سے تو مزید کام نہیں چلے گا۔

امواجِ ثقل کی دریافت سے جڑے سماجی رویے اپنے اندر بڑی دلچسپ پیچیدگیاں لئے ہیں۔ ان پیچیدگیوں کی ایک جہت تو سماج میں سائنس اور انسانی ترقی کے متعلق کچھ ایسے اٹل مابعد الطبیعاتی دعووں سے متعلق ہے جنہیں طبیعاتی کہنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وطنِ عزیز میں اب تک شدت پسندوں کے علاوہ کس مذہب پسند نے سائنسی علوم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے؟ پاکستانی مدرسوں پر تو تنقید کے دفتر لکھے جا چکے ہیں لیکن جامعات میں علمی رویوں اور نوجوانوں کی بے سمتی کے بارے میں تاحال اسی زور و شور سے تنقید ہونا باقی ہے۔ کیا سائنسی دریافت اور ایجادِ علمی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر مذہب پسندوں کو نشانہ بنا کر فکاہیہ سینہ کوبی سے بہتر یہ نہیں کہ فکاہیہ انداز میں ہی سہی سیکولر جامعات کے نصاب اور تدریسی رویوں پر آوازے کسے جائیں؟ امت مسلمہ کو دہائیاں دینے میں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن کم ازکم ا±س درویش اور فقیر کو بھی اس خطہ زمین پر سر اٹھا کر جینے کا حق دیا جائے جو انسانی ترقی کے دوڑ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی بجائے صرف تسبیح پھیرتے ہوئے اپنی موت کا منتظر ہے۔ اگر امواجِ ثقل کی دریافت سے ترقی کے کسی ایسے تصور کو تقویت ملتی ہے جو انسانیت کا عالمگیر کا تصور ہے تو ہمیں بھی بتائیے تاکہ ہم بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر سینہ کوبی کا فریضہ انجام دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلم ذہن میں علم کی دوئی اور فلسفہ و سائنس اور مذہب کو ایک دوسرے کے مخالف گرداننے میں ہم اپنے متشدد مذہب پسند دوستوں کو ہدف بناتے ہی رہتے ہیں۔

اس سلسلے میں دوسری جہت سائنس کے مابعدالطبیعاتی مفروضوں سے متعلق ہے جن پر بات کا یہ موقع نہیں لیکن اتنا عرض کرنا ناگزیر ہے کہ سائنسدانوں کے درمیان سائنسی دریافت کی عالمگیر تشنگی کی بنیادوں میں موجود سب سے بڑا مابعدالطبیعاتی مفروضہ یہی ہے کہ فطرت نے کائنات کا کل نظام ایک آفاقی نظم میں باندھا ہے اور انسان ایک نہ ایک دن وہ نظم دریافت کر ہی لے گا۔ ایک سائنسدان جب صبح اپنی تجربہ گاہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کے پیش نظر یہی مفروضہ ہوتا ہے کہ آج میں اس مابعدالطبیعاتی آدرش کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھوں گا۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ دنیا کے تمام انسان بالکل ایک ہی قسم کی پیاس محسوس کرنے پر قادر ہوں۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک فضول سے خواہش ہے جس پر وقت اور پیسہ برباد کیا جا رہا ہے۔ حریت فکر ہی کا تقاضا ہے کہ بلاوجہ ان کا ٹھٹھا اڑانے کے جواز تلاش نہکیے جائیں۔ اس سے نفرتیں اور بیزاری تو ضرور بڑھ سکتی ہے لیکن کسی مثبت مکالمے کی امید نہیں۔ ہاں انہیں دلیل سے قائل کیا جائے کہ انسان کا کششِ ثقل کی حتمی علت دریافت کر لینا کتنا اہم ترین مسئلہ ہے۔ سو کچھ انسانوں کو یہ کام عبادت سمجھ کر کرنا چاہیے کیوں کہ ا س پیاس کے ثمر پوری انسانیت کے مشترکہ ثمر ہیں۔ آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ امواجِ ثقل کو دریافت کرنے والی ٹیم میں سرفہرست کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک پاکستانی خاتون ہی ہیں جن کا نام پروفیسر نرگس ماول والا ہے۔

بوسے کا مسئلہ نہایت اہم اور فوری توجہ کا مستحق ہے۔ اس کی وجہ فی نفسہ سرعام بوسہ لینے والوں کے انسانی حقوق میں ہماری غیر معمولی دلچسپی نہیں بلکہ اس کو ایک فلسفیانہ قضیے کے طور پر بحث کے دائرے میں لا کر ہمارے سماج میں سرِ عام اظہار عشق و قربت کے اختیاری دائروں کے محیط کی پیمائش اور اخلاقیات سے جڑے کئی اہم مابعدالطبیعاتی مفروضوں کا تجزیہ ہے۔ ہمارے کئی متوازن اور محترم مذہب پسند دوستوں کا خیال ہے اس قسم کے سوال اٹھانا خدا بیزاری، روایت و اقدار کی مخالفت اور مذہب دشمنی ہے۔ ان کے رائے میں یہ استدلال بے وقعت ہے کہ سب کو اپنے اپنے اخلاقی معیارات کے تحت زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے کیوں کہ کچھ اٹل اور مسلمہ اخلاقی معیارات جو موجود ہیں۔ اگر سڑک کے کنارے پیشاب کرنے والے کو کوئی نہیں ٹوکتا تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سرعام جنسی تعلقات قائم کرنے کی حمایت میں دلائل دینے شروع کر دیے جائیں۔ اس منطق کی ر±و سے تو خودکشی کی حمایت میں بھی دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ ہماری رائے میں ان کی بات میں یقیناً اس حد تک تو وزن ہے کہ اس ذیل میں کوئی نہ کوئی پیمانے ہونے چاہئیں لیکن ہمیں اس سے اتفاق نہیں کہ ایسے پیمانے موجود ہیں جنہیں ہمارے سماج کی حد تک ہی عالمگیر کہا جا سکے۔ ہماری رائے میں یہ ایک کافی کھلا دائرہ ہے جس کا محیط بتدریج بڑھ رہا ہے۔ آپ کی بات سے ہم کلی طور پر متفق ہیں کہ شرم و حیا بہرحال لغت میں موجود ایسے الفاظ ہیں جن کے کوئی نہ کوئی خوبصورت معنی ضرور ہیں لیکن اتنی بات پھر بھی واضح ہے کہ پیشاب کی بو سونگھنے کے لئے تو سب کے نتھنے یکساں ہیں لیکن شرم وحیا کی ’خوشبو‘ سونگھنے کے روحانی نتھنے یکساں نہیں۔ سماج میں ان حوالوں سے ایک سے زیادہ طبقات موجود ہیں اور ان میں سے ایک کثیر تعداد اخلاق کے مسلمہ معیارات کی تعریف میں باہم مختلف ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments