امواجِ ثقل، لبرل ازم اور بوسے کی مابعدالطبیعات


لہٰذا یہ ایک کثیرجہتی مسئلہ ہے جس کاحل تو درکنار تاحال اس کی تفہیم کی گرہیں ابھی کھلنا باقی ہیں۔ مذہب پسند دوستوں کو ہمارا جواب یہی ہے کہ ہماری رائے میں یہ مغربی روایات کی نقالی کانہیں بلکہ اپنی روایت کے ناگزیرابہام کامسئلہ ہے۔ برسرِ عام اظہارِ قرب کے حوالے سے دنیا کی متنوع سماجی روایات پر یکساں انداز میں بات نہیں کی جا سکتی لیکن عمومی سماجی دھاروں میں کافی مطابقت تلاش کی جا سکتی ہے کیوں کہ یہ انسانیت کے مشترکہ جذبات ہیں۔ انیسویں صدی کے آخرمیں جس وقت امریکہ میں پردہ اسکرین پرایک مرداورعورت کے درمیان یہ منظر پیش کرنے کا مسئلہ اٹھا تو ہماری روایت میں شعروسخن کی لطیف گدگداہٹ اور کھلم کھلا اظہار، دونوں طریقوں سے اس انسانی جذبے کی نت نئی تصویریں بنانے سنوارنے کا عمل جاری تھا۔ ہمارے سماج میں موجود اس وقت کے جمالیاتی پیمانوں کی روسے اس شعری تصویر پر برسرعام واہ واہ حاصل کرنا نہ صرف قابل ِقبول بلکہ کسی حد تک قابلِ تعریف عمل تھا۔ سماج کے اخلاقی پیمانوں کی رو سے عورت و مرد کے درمیان تعلقات کی ’قبیح‘ صورتوں کو شہری سماج میں ایک علیحدہ جگہ دی گئی تھی اور سماج کے شرفاء ادھر جا کر رات کے ا ندھیرے میں اپنی انسانی ضرورت پوری کر سکتے تھے۔ یہاں سے سماجی رویوں کی دم پکڑئیے اور تلاش کیجئے کہ ہم جن روایات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ کیا کہیں منجمد ہیں یا ایک غیرمحسوس طریقے سے تبدیل ہو رہی ہیں؟ اپنے ارد گرد دیکھئے تو کیا ان ’غیر مقدس‘ بلکہ ہمارے سماج میں ’مذموم‘ انسانی رشتوں کی ’قباحت‘ کسی حد تک قلبِ ماہیت سے نہیں گزر چکی؟ کیا ہمارے تمام مذہب پسند طبقات جو کسی تصوراتی اخلاقی روایات کا رونا روتے نہیں تھکتے، انسانوں کے اس جم غفیر سے ناواقف ہیں جو تھیٹرز میں فحش ناچ اور فلموں میں آئٹم گانوں کو شدت سے پسند کرتا ہے؟ بہت آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا سماج ایک سست رفتاری سے بدل رہا ہے اور ان سماجی رویوں کو صرف پابندیوں اور جبر سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلے کو مذہب پسندی اور مذہب بیزاری کے درمیان جنگ تک محدود کر دینا تو نہایت سطحی سی فکری سہل پسندی ہے۔

ہماری رائے میں متوازن صورت یہی بنتی ہے کہ اپنی اپنی تعبیر کے مطابق اخلاقی فلسفوں سے کشیدکیے گئے مسلمہ اخلاقی اصولوں اور سماج میں ان کے عملی اطلاق کی صورتوں کی پرامن تبلیغ جاری رکھی جائے، لیکن ساتھ ہی ایک باہمی سمجھوتے کے ذریعے گناہ اور جرم میں حدِ فاصل قائم کی جائے۔ سرعام اظہارِ عشق کے طریقے متنوع ہیں اور بہرحال افراد کے دائرے کسی نہ کسی حد تک سماج کے دائرے میں پیوست ہوتے ہی ہیں۔ تمام انسان مختلف لباس پہننا چاہتے ہیں اور ان کی اخلاقی و جمالیاتی ترجیحات مختلف ہیں۔ کسی ایک دو یا چند انسانوں کے ہاتھوں پورے سماج کو یرغمال نہیں بنائے جا سکتا۔ وہ ایک دو انسان سرعام اظہارِ عشق کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں، سرعام برہنہ ہونے والے بھی اور ان کو پتھر مارنے والے بھی۔ دونوں جانب سے دیکھئے تو ہدف مختلف ہے لیکن فضا سے جائزہ لیجیے تو بہرحال پورا سماج ہی نشانے پر ہے۔ پھر اظہارِ عشق کے مظاہر بھی متنوع ہیں اور کون فیصلہ کرے گا کہ اب سماج کی اخلاقی حدود پامال ہو رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ قانون کا مسئلہ ہے اور اس کی بنیاد یہی ہے کہ کسی فرد کے عمل سے ماحول میں بے حد اضطراب، بے چینی یا نقصِ امن کا اندیشہ تو نہیں۔ لیکن یہ سب پیمانے بھی موضوعی ہیں۔ کسی جوڑے کے راہ چلتے ہاتھ پکڑ کر ہنسنے کا منظر بھی کسی ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے فرشتہ سیرت پارسا کے لئے باعث ایذا ہو سکتا ہے۔ کچھ بہت محترم نیک سیرت دوست جن کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی چین نہیں لینے دیتی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پھر کیا کیا جائے؟ ہمارا جواب یہی ہے کہ بہرحال سماج میں کسی نہ کسی حد تک جبر پر تو ایک ناگزیر سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔ یہ ایک ایسا جبر ہے جو سماج خود اپنی مرضی سے اپنے اوپر لاگو کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہاں ایک نہایت اہم مابعدالطبیعاتی مفروضہ یہی ہے کہ اکثریت کا جبر اقلیت کو تسلیم کر لینے ہی میں سماجی تبدیلی کی پرامن راہوں پر چلا جا سکتا ہے۔ سو اقلیت کے لئے یہ راہیں کھلی ہیں کہ اپنے استدلالی وسائل کے زور پر اکثریت میں تبدیل ہو جائے۔

اس طویل نظر خراشی کی ضرورت اس لئے پیش آئی تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ہم سب انسان استدلال کی کوئی مافوق الفطرت قوت نہیں رکھتے بلکہ ہمارا استدلال اپنی گہری ترین تہوں میں کچھ مخصوص ذہنی میلانات کی بنیاد پر چند مابعدالطبیعاتی مفروضے قائم کر کے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ سفر مشاہدے اور تجربے سے عبارت ہے۔ مشاہدے اور تجربے کے نتیجے میں ذہنی میلانات میں تبدیلی آتی ہے اور مفروضے بدلتے رہتے ہیں۔ ان مفروضوں پر کسی بھی قسم کے اٹل اصرار سے پرہیز کیجئے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments