اوورسیز پاکستانی


اوورسیز پاکستانی ہماری معاشی اور معاشرتی لائف لائن ہیں، انہوں نے پچھلے سال 29 ارب ڈالر پاکستان بھیجے اس مالی سال 32 ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال 36 ارب ڈالر کا تخمینہ ہے

اس مالی سال ہماری کل برآمدات صرف 30 ارب ڈالر جبکہ درآمدات 70 ارب ڈالر ہیں تو یہ جو 40 ارب ڈالر کا سیدھا سیدھا خسارہ ہے اس میں سے 32 ارب ڈالر انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ کے ذریعے ادا کیے جائیں گے اور باقی کے صرف 8 ارب ڈالر کے لئے ہم اور ہمارے سارے اکابرین دنیا بھر کے اداروں، ملکوں اور بینکوں کی مذاکرات کے نام پر منت سماجت کر رہے ہوں گے اور اپنی سیاسی خودمختاری کا کہاں کہاں گروی رکھ رہے ہوں گے، اس ایک مثال سے ہی آپ ان اوورسیز کے بھیجے گئے ایک ایک ڈالر کی قیمت کا اندازہ لگا لیں

پاکستان کا نقشہ دیکھ لیں اور جن علاقوں کے لوگ زیادہ تعداد میں بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اس کا جائزہ لیں پھر آپ ان علاقوں کی خوشحالی کا باقی ملک سے تقابل کر کے دیکھ لیں ساری صورتحال آپ پر واضح ہو جائے گی

پیداوار تو ہماری زراعت اور کچھ ضروری چیزوں کے علاوہ کوئی خاص ہے نہیں اس لحاظ سے ہم ایک کنزیومر سوسائٹی ہیں اور صارفین پر مبنی یہ منڈی یا مارکیٹ انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے اپنے گھروں کو بھیجے گئے پیسے سے چلتی ہے خواہ پرائیویٹ اسکول کالج ہو یا ہسپتال اور میڈیکل اسٹور، خواہ فاسٹ فوڈ اور دیسی کھانوں کی خریداری ہو یا برانڈڈ اور ان برانڈڈ ملبوسات اور گھریلو اشیائے تعیش جیسے ٹی وی، فریج، ائرکنڈیشن وغیرہ کی خریداری، کاروں اور موٹر سائیکلز کی فروخت ہو یا پراپرٹی اور ہاؤسنگ سیکٹر اور تعمیرات کا شعبہ، ان سب میں زیادہ تر سرمایہ کاری اور خریداری اسی پیسے کی وجہ سے ممکن ہو پاتی ہے جو یہ اوورسیز پاکستانی اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں

انہی کا اپنے اپنے گھروں کو بھیجا ہوا پیسہ جب ان کے گھر والے خرچ کرتے ہیں تو یہ مذکورہ بالا سارے شعبے چل پاتے ہیں اور اس طرح یہ پیسہ مختلف شکلوں میں کہیں کم کہیں زیادہ تقسیم ہو کر ہماری خوشحالی ( عارضی اور مصنوعی ہی سہی ) کا باعث بنتا ہے اور مارکیٹ اور قوت خرید کی یہ سرگرمیاں اور اس کے بظاہر خوشحالی والے اثرات ان علاقوں میں واضح نظر آتے ہیں جہاں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاکستانی بیرون ملک گئے ہوئے ہیں

میں پاکستان کے ان ایک کروڑ کے لگ بھگ بیٹوں اور بیٹیوں کو پاکستان کا محسن سمجھتا ہوں جو وہاں کہیں بیڈ اسپیس جتنی جگہ میں رہ کر اور کہیں فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سو کر، بارہ بارہ، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے، کہیں نسلی و مذہبی تعصب و نفرت سہ کر، اپنے رشتوں اور پیاروں سے دور رہ کر ہمارے لئے اپنے رشتے داروں کے لئے جو محنت کرتے ہیں ہم نکھٹووں کے حصے کا جو کام کرتے ہیں اس پر یہ اس بات کے حقدار ہیں کہ انہیں عزت دی جائے نا کہ ان کی توہین کی جائے

ان کی اکثریت کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے اور نا ہی یہ ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور نا ہی کوئی حصہ مانگتے ہیں، سیاسی عزائم صرف ان چند سو یا چند ہزار اوورسیز کے ہو سکتے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں جو بیرون ملک معاشی طور پر سیٹ ہو چکے ہیں اور اب بھرے پیٹ کی خرمستیاں دکھاتے نظر آتے ہیں

آپ انہیں ووٹ کا حق دینے یا نا دینے پر ضرور رائے رکھیں اتفاق رائے ہو جائے تو اس ضمن میں قانون سازی بھی کیجئے لیکن اپنے ان ایک کروڑ بیٹوں اور بیٹیوں سے بے اعتنائی اور حقارت نا برتیے جو کسی گمنام سپاہی کی طرح کہیں پچاس ڈگری کی گرمی اور کہیں منفی پچاس ڈگری کی سردی میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر پچھلی کئی دہائیوں سے آپ کی، میری اور اپنے وطن کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی بقاء کے خاموش مگر یقینی ضامن بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments