بے لگام ہیجان کو لگام دیجئے

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


دنگل اور دنگل کے اندر جوڑ یا کشتی، اس کا اپنا ہی ایک ماحول ہوتا ہے۔ یوں تماشائیوں کی ہو ہا بہت ہوتی ہے لیکن نازک داؤ پیچ کے دوران وہ دم سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی کیفیت میں شاطر پہلوان اپنا سب سے بڑا داؤ کھیلتا ہے۔ اپنے حریف پہلوان کو ایک داؤ کا جھکاوا دے کر اچانک دوسرا داؤ لگا جاتا ہے۔ پنجابی میں اسے سجی ( دائیں ) دکھا کر کبھی (بائیں ) مارنا کہتے ہیں۔ عمران خان نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

کہا کہ حکومت اگر پی ڈی ڈی ایم کو اگر دینی تھی تو اس سے بہتر ہوتا کہ ملک پر ایٹم بم چلا دیتے۔ عمران خان کا اشارہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی طرف تھا لیکن اصل حقیقت مختلف ہے۔ بظاہر وہ بم چلانے کا کسی اور کو کہہ رہے ہیں لیکن اسے چلا وہ خود رہے ہیں۔ یہ بات پیچیدہ محسوس ہوتی ہے لیکن اگر اس پر ذرا سی توجہ دی جائے تو اتنی پیچیدہ بھی نہیں۔ اہل وطن کی توجہ گزشتہ دنوں حکومت پر توجہ کچھ زیادہ رہی۔ خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان وزرا کی جو حال ہی میں لندن گئے جہاں انھوں نے مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔

یہ روایت پرانی ہے کہ کاتا اور لے دوڑی۔ اس ملاقات پر بھی لوگ دور دور کی کوڑی لائے۔ یہاں تک کہ الطاف حسین جیسی شخصیت سے بھی مماثلت تلاش کر لی گئی۔ خود الطاف حسین نے بھی اس موقع پر خاموش رہنا مناسب نہ جانا اور حساب چکانے کی کوشش کی۔ جہاں تک پی ٹی آئی اور اس کے حلقہ متاثرین کا تعلق ہے، جو ان کے منھ میں آئی، وہ کہہ گزرے۔ یہی عمران خان کی اصل چال تھی۔ لوگوں کی توجہ اس ملاقات کی طرف رہی اور وہ واردات کر گزرے۔

عمران خان کی واردات کی ابتدا دراصل اس معاہدے سے ہوتی ہے جو انھوں نے آئی ایم ایف سے کیا تھا۔ یہی معاہدہ تھا جسے ہماری لائق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے معیشت میں لگائی ہوئی بارودی سرنگ قرار دیا تھا۔ یہ کوئی ایک بارودی سرنگ نہیں ہے۔ سلسلہ در سلسلہ بچھائے ہوئے جال کی طرح یہ بارودی سرنگوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ہماری پوری معیشت جس کی گرفت میں دے دی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کی یہ گرفت کتنی کڑی اور سخت ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عمران خان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے مطابق آج پیٹرول کا فی لیٹر نرخ ڈھائی سو روپے ہونا چاہیے۔

حکومت جاتی دیکھ کر عمران خان نے اپنے شہرہ ٔآفاق یو ٹرن کا سہارا لے کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ صرف یہ کہ کم کر دیں بلکہ انھیں بجٹ تک کے لیے منجمد بھی کر دیا۔ عمران کے اس پینترے کا قومی معیشت پر کیا اثر پڑا، ایک چھوٹا سا موازنہ اسے واضح کرتا ہے۔ ہماری حکومت کے ماہانہ اخراجات 45 ارب روپے ہیں جب کہ عمران خان کے اس پینترے کی وجہ سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ 102 ارب روپے ماہانہ ہے۔ یہی وہ ایٹم بم ہے جو عمران خان نے جو چلا کر قومی معیشت کی کمر توڑ دی۔

یہی صرف ایک ایٹم بم نہیں ہے جو عمران خان نے چلایا ہے بلکہ ایک ایٹم بم وہ مسلسل چلا رہے ہیں۔ یہ ایٹم بم ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں جن کی تاثیر سے قوم تقسیم ہوئی جاتی ہے۔ حزب اختلاف یا سیاسی مخالفین تو عمران خان کا پسندیدہ ہدف ہوا کرتے تھے جس کے لیے وہ ایسی زبان بھی استعمال کر جاتے، شرفا کی محفل میں جس کا استعمال معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اب انھوں نے قومی اداروں کو بھی ہدف بنا لیا ہے اور اب وہ کھل کر پوری ریاست ہی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کے ایک رہنما کی حیثیت سے حکومت اور مخالفین پر تنقید ان کا حق ہے لیکن انھیں اپنی سیاست کی خاطر قومی استحکام کو داؤ پر لانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

عمران خان جس قسم کی سیاست کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے۔ بے یقینی کی اس صورت حال میں آئی ایم ایف تو کیا پاکستان کے قریب ترین خیر خواہ اور دوست ممالک بھی سو بار سوچیں گے کہ ایسے ماحول میں کسی ملک میں سرمایہ کاری کس طرح کی جا سکتی ہے؟ یہ ہے وہ ایٹم بم جسے عمران خان چلا چکے ہیں۔

ایسی صورت حال میں معیشت کو اپنے قدموں پر کون کھڑا کر سکتا ہے؟ حکومت کے پاس اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جانے والی رقوم میں کچھ رقوم ادھار یا کسی بھی دوسری آئینی گنجائش کے ذریعے حاصل کر کے قومی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ اس مقصد کے لیے صرف دو صوبے ہی قربانی دیں گے۔ یعنی پنجاب اور سندھ۔ پی ٹی آئی کی حکومتوں والے دو صوبوں سے اس سلسلے میں کسی تعاون کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اس پس منظر میں موجودہ صورت حال ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔

یہ حکومت کئی قسم کی قربانیاں دے کر معیشت کو سہارا دے سکتی ہے لیکن اس کے لیے پر سکون فضا درکار ہے۔ عمران خان کی سیاست کی وجہ سے یہ فضا مسموم ہو چکی ہے۔ یہ فضا اگر اسی طرح مسموم رہتی ہے، ’تماشائی‘ دنگل کے تماشائیوں کی طرح دم سادھ کر بیٹھے رہتے ہیں اور ماحول میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوتے تو پھر وہی بات ہوگی جو مسلم ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہی ہے۔ یعنی موجودہ حکومت عمران خان کی حکومت کے چار برس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر کے الیکشن کی طرف چلی جائے گی۔

ایسی صورت میں پہلے سے تباہی کا شکار معیشت مزید تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔ عبوری دور میں کوئی عالمی مالیاتی ادارہ حتیٰ کہ کوئی دوست حکومت بھی یہاں سرمایہ کاری سے ہچکچائے گی۔ لہٰذا یہ فیصلے کا وقت ہے۔ بے لگام ہیجان کو لگام دے کر ملک کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے۔ ایسا اگر نہیں ہوتا تو لکھ رکھئے کہ پھر آنے والے دن اچھے نہیں۔ حالات ایسے ہو جائیں گے جن میں کوئی بھی یہ ملک چلا نہ پائے گا۔ آج سری لنکا کی مثالیں دی جا رہی ہیں، لوگ سری لنکا کو بھول جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments