افغانستان میں خواتین کو مکمل پردے کا حکم اور دیگر پابندیاں: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عورت ہونا جرم ہے‘

لارا اون - بی بی سی ہنڈرڈ وومن


افغانستان
’اس سے میرا دل ٹوٹ گیا کہ گلی میں لوگ میرے پاس آ رہے تھے، اور مجھ سے اپنا چہرہ ڈھانپنے کو کہہ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جس درزی کے پاس میں گئی تھی اس نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے بات کرنے سے پہلے اپنا چہرہ ڈھانپ لوں۔‘

یہ کہنا ہے ثریا کا جو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتی ہیں۔ اُن کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں زبردستی برقعہ پہننے کو کہا جائے گا بالکل ویسے ہی جیسے 1990 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور اقتدار میں نافذ کیا گیا تھا۔

لیکن رواں ماہ سات مئی کو خواتین کے چہرے تازہ ترین پابندیوں کی زد میں اس وقت آ گئے جب کئی دہائیوں بعد پہلی مرتبہ افغانستان کے حکمران طالبان نے اعلان کیا کہ خواتین کو عوامی مقامات پر نقاب پہننا چاہیے۔ طالبان کے عہدیداروں نے چہرے کے نقاب کے حکم نامے کو ’نصحیت‘ قرار دیا لیکن اس کی تعمیل نہ کرنے والوں کے لیے مخصوص قسم کے سخت اقدامات کا اعلان کیا۔

اور رواں ہفتے جب ثریا نے مغربی کابل میں اپنے روز مرہ کے امور کے لیے بازار کا رخ کیا تو ان کے لیے صورتحال کچھی ایسی تھی جیسا سب کچھ بدل چکا ہے۔

طالبان کے نمائندے خواتین کے کپڑوں کی دکانوں کے اندر موجود تھے اور وہ اُن پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ دکاندار خواتین کو کیسے کپڑے فروخت کر رہے ہیں اور کیا ان کپڑوں کی لمبائی اُن کے مرتب کردہ معیار کے مطابق ہے۔

ثریا کہتی ہیں ’یہ سب دیکھ کر میں ڈر گئی۔‘

یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے انھوں نے خواتین کی آزادی پر پابندی لگاتے ہوئے مختلف احکامات جاری کیے ہیں۔

افغانستان

ان میں خواتین کی سرکاری ملازمتوں، ثانوی تعلیم اور محرم، یا مرد سرپرست کے بغیر 45 میل سے زیادہ سفر کرنے پر پابندی شامل ہے۔

افغانستان میں کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ چہرے کے نقاب کے استعمال کا حکم ان کے انسانی حقوق پر تازہ ترین حملہ ہے۔

ایک اور افغان خاتون ثنا جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نوکری چھوٹ جانے کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں کہتی ہیں ‘ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں عورت ہونا ایک جرم ہے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ (طالبان) میرے لباس کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں میں تو ویسے بھی گھر سے باہر نہیں جا رہی۔ صورتحال بہت مایوس کن ہے۔‘

مرد سرپرست عورت کا انچارج ہے

ملک میں زیادہ تر افغان خواتین پہلے سے ہی کسی نہ کسی شکل کا حجاب پہنتی ہیں، ایک سکارف جو سر اور گردن کو ڈھانپتا ہے، لیکن نئی پابندیوں کے تحت خواتین کو یا تو مکمل نقاب پہننے کی ضرورت ہے، جو چہرے کو ڈھانپتا ہے لیکن آنکھوں کو نہیں، یا برقعہ، جو چہرے اور آنکھوں پر جالی کے ساتھ ساتھ پورے جسم کو ڈھانپتا ہے۔.

ان کے محرم، سرپرست یا ان کے کسی قریبی رشتہ دار کو ان کے لباس کی نگرانی کرنا ہو گی کیونکہ نافذ کردہ قواعد کی خلاف ورزی پر انھیں (سرپرست) سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان سزاؤں میں انھیں وزرات کے حکام سے ملنے کے لیے بلایا جا سکتا ہے، یا ممکنہ طور پر انھیں تین دن کے لیے جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ جبکہ نوکری پیشہ خواتین کو برخاست کیا جا سکتا ہے۔

نئی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھا کر افغانستان کی چند خواتین اپنے تحفظ کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

کابل میں خواتین کے ایک گروہ نے رواں ہفتے روایتی افغان لباس پہن کر اپنے لباس کے حق کے خلاف احتجاج کیا۔

اس مظاہرے میں شامل ایک خاتون مریم کہتی ہیں کہ ’پچھلے آٹھ ماہ میں طالبان نے ہمارے لیے ہمارے لباس کی نگرانی کے علاوہ کچھ نہیں کیا، سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے اور طالبان پہلے ان مسائل کو حل نہیں کر رہے ہیں۔‘

چند مظاہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کو جب انھوں نے احتجاج کے طور پر سڑکوں پر آنے کی کوشش کی تو انھیں طالبان اہلکاروں نے روک دیا۔

ان خواتین مظاہرین میں سے ایک اور خاتون ہاجرہ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے دو گھنٹے تک مجھے وہیں کھڑے رکھا، انھوں نے میرا موبائل فون مجھے سے چھین لیا اور ہمیں پولیس سٹیشن لے جانے کی دھمکی دی۔‘

بی بی سی افغان سروس نے اس بارے میں طالبان سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کسی قسم کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

افغانستان

گلیوں میں مخالفت

کابل میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن انوشے کہتی ہیں کہ جس دن نقاب کرنے کا حکم نامہ آیا انھوں نے اسی دن اس کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

’اس حکمنامے کے پہلے دن میں اپنے بارہ سالہ بیٹے کے ہمراہ جان بوجھ کر اپنے معمول کے حلیہ میں گھر سے نکلی تھی اور میں نے نقاب نہیں لیا ہوا تھا اور میں شہر کے تمام مقامات پر گئی۔ میں کسی طالبان نمائندے سے اسی حالت میں جا کر ٹکرانا اور اسے چیلنج کرنا چاہتی تھی۔‘

شیخکبہ، جو کہتی ہے کہ وہ ایک ملحد ہیں، حکام کے ساتھ حالیہ تنازعوں کے باوجود، اپنے لباس کے انداز کو تبدیل کرنے کے لیے کسی بھی دباؤ کے خلاف لڑنے کا عہد کرتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی جاتے ہوئے انھیں طالبان کے ایک اہلکار نے صحیح لباس نہ پہننے پر روکا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب اس نے مجھے برقعہ پہننے اور نقاب لینے کا کہا تو میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بہت گرمی ہے لیکن اس نے اصرار کیا کہ مجھے خود کو ڈھانپنا ہے۔‘

شیخکبہ کہتی ہیں کہ جب بھی بات اُن کے کپڑوں کی ہو تو انھوں نے ہمیشہ افغانستان کے معاشرے میں دباؤ محسوس کیا ہے، جس میں ان کے خاندان کے مرد ارکان بھی شامل ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’فرق صرف اتنا ہے کہ اب میں دو محاذوں پر لڑ رہی ہوں، ایک میرا خاندان اور دوسرا طالبان حکام۔ میں خوفزدہ ہوں لیکن میرے پاس سوائے لڑائی کے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں خواتین کے لیے مکمل پردے کا حکم

’وہ کہتے ہیں ہمیں افغان خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن میں ڈرتی ہوں‘

طالبان کے خواتین کے حوالے سے نئے قوانین، ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے پر پابندی عائد

افغانستان: خواتین کے اکیلے سفر کرنے اور گاڑیوں میں موسیقی چلانے پر پابندی

افغانستان

سفری پابندیاں

یہ واحد پابندی نہیں ہے جس کا انھیں سامنا ہے۔ شیخکبہ کو حال ہی میں ایران میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ لینے کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ ان کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرنے یا نگرانی کرنے کے لیے کوئی محرم مرد نہیں تھا۔

مارچ میں، طالبان نے خواتین کو بغیر محرم کے ملکی یا بین الاقوامی پروازوں میں سوار ہونے سے روکنے کے لیے پابندیاں متعارف کرائی تھیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بذریعہ سڑک طویل سفر کرنے کی خواہشمند خواتین کو صرف اس صورت میں ٹرانسپورٹ کی اجازت دی جائے گی جب ان کے ساتھ کوئی مرد رشتہ دار ہو۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے طالبان کو سمجھایا کہ میں اپنے ساتھ کسی کو ایران نہیں لے جا سکتی لیکن انھوں نے میری ایک نہیں سنی۔‘

شیخکبہ کی طرح فرشتہ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ جب وہ ایک سال کی تھیں تو ان کے والد فوت ہو گئے تھے اور گھر میں کسی مرد سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے اب ان کی نقل و حمل پر پابندی لگ سکتی ہے۔

انھوں نے گھر سے باہر کام کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے اپنے خاندان سے طویل جنگ لڑی، اور ایک مدت کے لیے انھوں نے ایک سماجی کارکن کے طور پر ملازمت کی، اپنی بہن کے ساتھ کانفرنسوں میں سفر کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید تھی کہ جب میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوں گی تو میں بیرون ملک اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں گا اور ماسٹر ڈگری کر سکوں گا، لیکن اب مجھے امید نہیں ہے۔‘

افغانستان

یونیورسٹی سے ایک نوٹس

رواں ہفتے فرشتہ کو اپنی یونیورسٹی پروفیسرز کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا جس میں اصرار کیا گیا کہ وہ اور ان کی ہم جماعت خواتین ڈریس کوڈ کے بارے میں طالبان کے نئے قوانین کی پابندی کریں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کچھ پردہ کروں گی لیکن اتنا نہیں جتنا طالبان مجھ سے چاہتے ہیں۔ کیونکہ میں پریشان ہوں کہ اگر وہ میرے گھر آئیں اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو۔‘

لیکن ان کی کچھ ہم جماعتوں کے لیے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ فریشتہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ مکمل نقاب پہنیں گے کیونکہ ان کے باپ دادا نے انھیں نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔‘

ہرات یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نجمہ کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے پر عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے، میں بہت کمزور محسوس کرتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس ان احمقانہ اصولوں کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں بیان نہیں کر سکتی کہ یہ صورتحال کتنی خراب ہے، وہ خواتین اور لڑکیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ہمیں پنجرے میں قید کر رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments