بچے دو ہی اچھے


مجھے اکثر کسی نہ کسی وجہ سے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ ابھی اتنی عمر تو نہیں ہوئی کہ گٹے گوڈے جواب دے جائیں، لیکن اگر وہ ساتھ نہیں دینا چاہتے، تو پھر کیا کر سکتی ہوں۔ اس درد کی دوا تو کرنی پڑے گی۔ ڈاکٹر کو چیک اپ کروانا ہو تو کسی بھی نجی ہسپتال جانے سے پہلے ایک بار سرکاری ہسپتال جانے کو ترجیح ضرور دیتی ہوں، وجہ یہ نہیں کہ وہاں کا ماحول بہت اچھا ہے اور ڈاکٹر مریض پر بہت توجہ دیتے ہیں، بلکہ اس لیے جاتی ہوں کہ کوشش ہوتی ہے کہ نجی ہسپتال میں ڈاکٹر کی فیس کی مد میں لگنے والے دو ہزار کسی طرح بچ جائیں۔

لیکن ہر بار سرکاری ہسپتال کے غیر سرکاری دورے کے بعد مجھے دو ہزار لگانے ہی پڑتے ہیں۔ لیکن وہاں جانے کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ یہ کہ سرکاری ہسپتال کے بہترین ناقص انتظامات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ وہاں صفائی، ڈسپلن سمیت بہت سی چیزوں کا فقدان عام ہے۔ ڈاکٹرز مریض کو اتنی عجلت میں دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھار شک ہوتا ہے کہ اپنی شادی سے اٹھ کر آئے ہیں، لہذا جلدی سے کام نپٹا کر واپس جانا چاہتے ہیں۔ ہڈی جوڑ، گردے، پتے کی مریضوں پر اتنی توجہ دی جاتی ہے۔ جتنی الیکشن جیتنے کے بعد سیاستدان عوامی مسائل پر دیتے ہیں۔ تھوڑے مرض والوں کو ڈاکٹر مریض نہیں سمجھتے اور ذرا بگڑے ہوئے مرض کو لاعلاج قرار دے کر لاہور لے جاؤ ’کا نادر مشورہ مفت دیتے ہیں۔ اگرچہ تمام سرکاری ہسپتالوں کا حال قریبا ایک جیسا ہی ہوتا ہے، لیکن سیالکوٹ میں جو دو سرکاری ہسپتال ہیں ان میں مختلف شعبوں کے ماہر ڈاکٹرز ہفتہ میں ایک دو دن اپنی شکل دکھاتے ہیں۔ وقت کے سخت پابند ہیں، چاہے گیارہ بجے او پی ڈی میں آئیں، لیکن ٹھیک بارہ بجے‘ ٹی ٹائم ’اور اس کے بعد ادھر ہی سے‘ چھٹی ٹائم ’ہو جاتا ہے جس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔

ہسپتال میں ہونے والے مختلف ٹیسٹ رپورٹس کا حال حسب معمول غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹرز خاص لیبارٹریز کا ایڈریس بتاتے ہیں۔ ویسے تو ڈینٹل کلینک کو باہر سے دیکھ کر ہی ابکائی آجاتی ہے۔ پھر بھی آپ اندر جانا چاہیں تو اس کلینک میں صرف دانت نکالنے کی سہولت میسر ہے، جو آسانی سے نکالے جا سکتے ہیں، اب جیسے چاہے نکالیں۔ جلد کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کی موجیں ہیں کہ ہسپتال میں ٹریٹمنٹ کرنے کے لیے کسی قسم کی مشینری موجود ہی نہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ کلینک پہ بلانے پر‘ مجبور ’ہوتے ہیں۔ زنانہ و مردانہ وارڈز کا حال یہ ہے کہ مریضوں کے ساتھ ساتھ حشرات کو بھی انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے۔

یہ تو ہے ضلعی ہسپتالوں کی صورتحال۔ اب اگر دور دراز دیہاتوں میں صحت کی سہولیات کی بات کریں تو ان کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال ہے نا، جہاں ضرورت کی ہر چیز عملہ سمیت غائب ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سٹاف شرف ملاقات بخش دیتا ہے، جو پوری ذمہ داری سے بتاتا ہے کہ مریض کو شہر بڑے ہسپتال لے جائیں۔ پسماندہ علاقوں کی بات تو رہنے ہی دیں۔ جہاں ابھی تک پینے کے صاف پانی کی سہولیات نہ پہنچی ہوں وہاں صحت کے مسائل پر بات دیوانے کا خواب ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پسماندہ علاقے کے لوگوں کو جانوروں کی طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ جہاں سڑکیں ہیں نہ بجلی، تعلیم ہے نہ صحت کی سہولتیں۔ اول تو ان پسماندہ علاقوں میں ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن جہاں کہیں ہیں وہاں تنخواہیں تو باقاعدگی سے وصول کی جاتی ہیں تاہم علاج کرنے والے غائب ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں انسانوں کے علاج کے لیے بنے ہسپتال بھینسوں کے باڑے کے کام آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کے پیچھے وجہ یہ ہو کہ بھینسیں بھی تو بالا آخر انسانوں کے ہی کام آتی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پسماندہ علاقوں میں کم از کم زچہ اور بچہ کی نگہداشت و رہنمائی کرنے کے لیے ہیلتھ سینٹر قائم کیے جاتے۔ لیکن ہیلتھ سینٹر میں بھینسیں اور سکولوں میں گدھے باندھ کر انسانوں کا خلا پورا کر لیا جاتا ہے۔ پسماندہ علاقوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ سرکار نے یہ سمجھا کہ وہاں صحت کی کسی قسم کی سہولت نہ دی جائے۔ کہ لوگ بیماریوں کا علاج نہ ہو سکنے کی وجہ سے جلد مر کھپ جائیں گے تو آبادی کنٹرول میں رہے گی۔ ٹی وی پر چلنے والے اشتہار ’بچے دو ہی اچھے‘ سے ان لوگوں نے یہی سمجھ رکھا ہے کہ سال کے سال بچہ پیدا کرو کوئی سے دو تو اچھے ہوں گے۔

بڑے بڑے عہدوں والے سرکاری افسران جن کی صحت پہ اٹھنے والے تمام اخراجات حکومت نے برداشت کرنا ہوتے ہیں وہ سب سرکاری ہسپتال کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کہ یہ سب جانتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کے انتظامات تسلی بخش نہیں۔ لہذا وہ سرکار کے خرچے پر مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کروا لیتے ہیں۔ جن کے اوپر اللہ کا زیادہ کرم ہے وہ بیرون ملک جا کر اپنی جان بچا لیتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جاتے میرے اور آپ جیسے مڈل کلاسیے، تو ان کو سرکاری ہسپتالوں کی ناکارہ مشینری، ڈیوٹی سے غیر حاضر ڈاکٹروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے، تاکہ سسٹم چلتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments