چھوٹے قد کے لوگوں کی آواز


بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ قدیم مصری تہذیب میں پست قامت یعنی بونوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان بونوں کو احساس کمتری کے زندان میں دھکیلنے اور انھیں معذوری کا طعنہ دینے کی بجائے ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اہل مصر بونے خداؤں کی پوجا بھی کرتے تھے، اس بات کا اثبات مزاروں کی دیواروں پر بنی بونوں کی تصاویر سے ہوتا ہے، مزید یہ کہ اس قدیم زمانے ( 4500 قبل مسیح) کے ادب اور فلسفہ ء اخلاق میں بونوں اور دیگر معذور افراد کے لیے احترام موجود تھا۔

اس رپورٹ کے مندرجات کا تقابل اگر موجودہ دور کے سائنسی عہد سے کریں کہ بظاہر سماجی، سیاسی، تہذیبی اور تمدنی حوالوں سے کئی معرکے سر کیے جا چکے ہیں لیکن ذہنی ناپختگی کا یہ عالم ہے کہ کسی شخص میں نشوونما کی ذرا سی کمی رہ جائے تو اس شخص کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ یہ توہین آمیز رویہ اس ایک فرد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس فرد سے وابستہ دیگر افراد بھی اس نفرت انگیز رویے سے چھلنی ہوتے ہیں۔ قد چھوٹا رہ جانے میں پیدا ہونے والے بچے کا یا اس کے والدین کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ آپ اسے مشیت ایزدی اور اس سے بڑھ کر اسے طبی نقص کا شاخسانہ قرار دے سکتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کے خیال میں بونے پن ( Dwarfism ) کی ایک سو سے زائد وجوہات ہیں، اس نقص کی سب سے عام وجہ ”کونڈرو پلاسیہ“ ( Achondroplasia) کی بیماری ہے جس سے اعضا چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بیماری سے سالانہ پچیس ہزار بچے متاثر ہوتے ہیں۔

مادیت پرستانہ معاشرے میں اخلاقیات اور عزت و تکریم کے معیارات بدل گئے ہیں۔ دولت و امارت کی وجہ سے خود پرستی اور انانیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ظاہرا شمشاد قامت اور اپنے ڈیل ڈول میں قابل رشک نظر آنے والے لوگ اپنے کردار کے حوالے سے بہت چھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ مرزا غالب نے تو اپنے خوبرو محبوب کی خوش قامتی کے نغمے گائے ہیں :

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قد دلکش سے جو گلزار میں آوے
ایک دوسرے مقام پر یوں نغمہ سنج ہوئے ہیں :
تیرے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

کیا کسی شخص کی ظاہری خوبصورتی اور قد و قامت کے مثالی روپ کا جادو زیادہ دیر تک چل سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، بالکل بھی نہیں کیونکہ شخصیت کے کچے اور بودے ر رنگ بہت جلد اتر جاتے ہیں۔ جاوید اختر نے ان نمائشی چہروں سے نقاب اتارتے ہوئے لکھا:

نرم الفاظ، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اتر جاتے ہیں

ایڈلر نے جسمانی کمتری اور بہتری کے حوالے سے پائے جانے والے احساس پر بات کی ہے اور اس کا خیال ہے کہ احساس کمتری کے مارے لوگ اپنے اس احساس کو چھپانے کے لیے بعض اوقات لوگ الٹے سیدھے کام بھی کر جاتے ہیں اور بسا اوقات حیران کن کارنامے سرانجام دیتے ہوئے نارمل افراد کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ باڈی شیمنگ ( Body Shaming ) ہمارے یہاں ایک معاشرتی مسئلہ ہے، پستہ قد افراد پر زہر ناک جملے کسے جاتے ہیں ہیں اور یہ طبقہ مذاق اور تضحیک کے ڈر سے گھروں سے تعلیم اور نوکری کے لیے نکلنے سے گھبراتے ہیں۔

اس موضوع پر جامعہ کراچی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم سلطان ناصر الدین نے نے کراچی کے پستہ قد افراد کے سماجی مسائل پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ کراچی ہی کے 35 سالہ فیصل پراچہ نے اپنے دکھ کا اظہار کچھ یوں کیا ہے ہے کہ لوگ چھیڑتے ہیں اور فقرے کستے ہیں کہ دیکھو وہ بونا جا رہا ہے، طرح طرح سے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

اپنے اس احساس کمتری پر قابو پانے اور اپنی ہمت و حوصلے کو یکجا کرنے کے بعد اگر وہ روزی روٹی کے لیے نکلتے ہیں تو ہمارے معاشرے کے ’چھے فٹ بونے‘ ان کا مورال ڈاؤن کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ حال ہی میں میں آسٹریلیا کے ایک نو سالہ بچے قادن (Quaden) کی ویڈیو نے اس وقت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا کہ جب اس بچے نے اپنے پستہ قد ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ پڑھنے والے بچوں کی باتوں اور شرارتوں سے تنگ آ کر کر روتے ہوئے اپنی ماں سے خود کشی کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس معصوم بچے کی والدہ نے رو رو کر دہائی دی کہ میرے بیٹے کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسے لوگوں نے اتنا زچ کیا کہ وہ اب اپنی جان کے درپے ہو گیا ہے۔ عالمی ضمیر اس بچے کی دردناک کہانی پر تھوڑا سا کسمسایا اور بیدار ہوا۔ بہت سوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکی پستہ قد کامیڈین بریڈ ولیمز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :

یہ صرف قادن کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ ہر اس شخص کے ساتھ ہوا ہے جو ظاہری خوبصورتی میں کمی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کبھی بھی اس طرح کے واقعات کا شکار ہوا ہے۔ آئیں! قا دن اور دوسرے لوگوں کو بتائیں کہ دنیا میں اچھائی موجود ہے۔

مجھے اس وقت ایک احتشام اختر کی نظم ”چھوٹے قد کے لوگ“ یاد آ رہی ہے، آپ بھی اس میں شریک ہوں :
بلند بانگ دعووں کی
آوازیں
کھوٹے سکوں کی طرح
بجتی ہیں
پھر بھی چھوٹے قد کے لوگ
ان قد آور آوازوں کو
سنتے رہتے ہیں
کاغذ کے ٹکڑوں کی
اب کوئی قیمت نہ رہی
پھر بھی بھوکی آنکھیں
انہیں ڈھونڈتی ہیں
اور ناکام رہتی ہیں
اور بے رحم ہاتھ
انہیں جمع کرتے رہتے ہیں
چھوٹے قد کے لوگ
اپنی آواز کھو چکے ہیں
وہ صرف دیکھ سکتے ہیں
اور صرف سن سکتے ہیں

کیا کسی کو اندازہ ہے کہ قد میں چھوٹے رہ جانے والے ان لوگوں پر کیا بیتتی ہوگی جن کے کاندھوں پر گھر بھر کی ذمہ داری آن پڑی ہو :

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں
قد میں چھوٹے ہوں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں
مجید امجد کی مشہور نظم ”ایک کوہستانی سفر کے دوران میں“ ایک ایسے خمیدہ اور

ٹنڈ منڈ پیڑ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ خطرناک پگڈنڈی پر چلنے والوں کی زندگی اس کمزور سے پیڑ سہارا لے کر آگے بڑھتی ہیں۔ اس نظم کا حسن نظم کے اختتام میں پوشیدہ ہے کہ معاشرے کے گرانڈیل طویل قامت جوانوں کی بے فیضی پر ایک زہر خند قہقہہ سنائی دیتا ہے

کیونکہ انہیں ایک جھکی ہوئی شاخ کا بھی منصب بھی حاصل نہیں اور وہ کسی کی دستگیری کرنے کے قابل نہیں :
آہ! ان گردن فراذان جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں۔

تاریخ عالم میں فرانس کے نیپولیئن بونا پارٹ کے علاوہ ایسے بہت سے Midget کردار ملتے ہیں کہ جنہوں نے پستہ قامت ہونے کے باوجود رہتی دنیا تک کے لیے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت فلمی دنیا میں ان کرداروں پر کئی یادگار فلمیں بنی ہیں جیسے : The Man with the Golden Gun، Freaks Mad Max beyond Thunderdome وغیرہ۔

شاہ رخ خان نے فلم Zero میں اس حوالے سے کام کیا ہے۔

بونا، بالشتیہ، پودنا وغیرہ جیسے تحقیری الفاظ پکارنے سے انسان کی باطنی صلاحیتوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ فارسی زبان میں پست قامت لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ کہاوت مشہور ہے کہ :

بقامت کہتر، بہ قیمت بہتر
شعر و سخن کے نامور استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق کی غزل کا یہ شعر بھی ضرب المثل بن چکا ہے :
دست ہمت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ نہ ہووے، پست قامت ہو تو ہو

عہد حاضر میں محض اپنی ظاہری خوبصورتی قدوقامت اور جسمانی طاقت کے بل بوتے پر نہیں جیا جاسکتا بلکہ اپنی بقا کے لیے اپنی وہبی و کسبی مہارتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس لحاظ سے غیر متعصبانہ رویوں کو

فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہب رنگ نسل، صنفی اور پست و بالا کے امتیازات سے ماورا ایک ایسی دنیا کے وجود کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے۔ جون ایلیا نے اپنے ایک مضمون ”جون

ایلیاؤں کو دو وقت کی روٹی چاہیے ”میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مانا زندگی ایک دنگل ہے مگر زندگی کی نسبت سے دنگل کے وہ معنی نہیں ہیں جن کی نسبت سے ہمیں گاما پہلوان اور امام بخش پہلوان کی یاد آتی ہے۔ چلیے مان لیا کہ زندگی ایک دنگل ہے جس میں کشتی لڑی جاتی ہے اور ’دھوبی پاٹ‘ اور ’لوگان‘ جیسے داؤ مارے جاتے ہیں مگر زندگی دنگل کے علاوہ بھی کچھ اور ہے بلکہ اس کے علاوہ ہی سب کچھ ہے۔ یہ دور دنگلوں اور ’میدان داریوں‘ کا دور نہیں ہے، یہ تفکر اور تدبر کا دور ہے اس دور کا ہم سے جو سب سے زیادہ توجہ طلب تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے بالشتیہ وجود، شائستہ بقا اور اپنے ہمہ جہت ارتقاء کے وسط اور گرد و پیش سے آگاہی حاصل کریں۔

پس نوشت :

پاکستان کے آئین کے تحت چار فٹ دس انچ سے چھوٹے تمام بالغ افراد کو معذور شمار کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ ایک سرٹیفیکٹ بھی جاری کیا جاتا ہے جب کہ ایسے افراد کے قومی شناختی کارڈ پر معذور افراد کے لیے مخصوص نشان بھی موجود ہوتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments