ہائیڈروجن بم: جب امریکی جوہری سائنسدان نے ’دنیا کا سب بڑا راز‘ ٹرین کے ٹوائلٹ میں کھو دیا

راجر ہرمسٹن - بی بی سی ہسٹری ایکسٹرا


البرٹ آئن سٹائن، ہیدیکی یوکاوا، اور جان آرچیبالڈ وہیلر پرنسٹن، 1954 میں گفتگو کرتے ہوئے۔
البرٹ آئن سٹائن، ہیدیکی یوکاوا، اور جان آرچیبالڈ وہیلر 1954 میں پرنسٹن میں گفتگو کرتے ہوئے
سات جنوری 1953 کی صبح جوہری سائنسدان جان آرچیبالڈ وہیلر ٹرین کے ٹوائلٹ میں پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہو کر اگلے دروازے کے کیوبیکل میں جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے، جہاں ایک آدمی وہی کر رہا تھا جو عموماً ایسی جگہوں پر لوگ کیا کرتے ہیں۔

وہیلر کی، جو ایک خوش و خرم شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے، اس حرکت کی وجہ سے جگ ہنسائی اور بدنامی ہو سکتی تھی۔

پرنسٹن یونیورسٹی اور امریکی سائنسی برادری میں اُن کی باوقار پوزیشن یقینی طور پر اس سکینڈل سے تباہ ہو سکتی تھی۔

لیکن اس وقت اُن کا خیال اس طرف تھا ہی نہیں کہ اگر وہ کسی باتھ روم میں جھانکتے پکڑے گئے تو کیا ہو گا۔ وہ اس سے کہیں بڑی فکر میں مبتلا تھے۔

ان کا دھیان نیچے ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھے شخص پر نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ والی دیوار پر تھا جہاں ٹوائلٹ سسٹم کے پائپوں کے پیچھے ایک لفافہ پھنسا ہوا تھا۔ اس لفافے میں دنیا کا سب سے بڑا راز پڑا تھا، اور وہیلر کو اسے ہی واپس لینا تھا۔

بھلکڑ سائنسدان چند منٹ پہلے ہی اسے کیوبیکل میں رکھ کر بھول گئے تھے۔

ہوا کیا تھا؟

41 سالہ وہیلر جنھیں اُن کے دوست ’جانی‘ کے نام سے پکارتے تھے، مینہٹن پراجیکٹ کی ایک اہم شخصیت تھے، جس نے جنگ کے دوران پہلا ایٹم بم تیار کیا تھا، اور اس وقت وہ میٹر ہورن بی کے ڈائریکٹر تھے اور 1938 سے وہاں، پرنسٹن یونیورسٹی میں، فزکس پڑھا رہے تھے۔

وہ اس روز رات کی ٹرین لے کر واشنگٹن ڈی سی میں امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری کے نمائندوں سے ملنے اور پراجیکٹ کے متعلق بات کرنے کے لیے گئے تھے۔ تاہم انھوں نے فیصلہ کیا کیونکہ وہ اب دارالحکومت میں ہیں اس لیے جوائنٹ کمیٹی آن اٹامک انرجی (ایٹمی کمیٹی برائے توانائی) کے ساتھ بھی ذاتی طور پر ہائیڈروجن بم پر اپنے تاثرات کا تبادلہ کریں۔

انھوں نے چھ صفحات پر مشتمل دستاویز، جو انھیں بھیجی گئی تھیں اور جن میں ہائیڈروجن بم کی تیاری کی تفصیلات موجود تھیں، ایک لفافے میں ڈالیں اور اپنے ساتھ رکھ لیں۔ یہ بم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا نیا اور خوفناک ہتھیار تھا جو اس وقت صرف امریکہ کے پاس تھا۔

رات کو انھوں نے دستاویز کو نکالا اور انھیں پڑھا اور نوٹس لیے۔ صبح جب وہ بیدار ہوئے تو وہ دستاویز کو کمرے میں چھوڑنے کے بجائے اپنے ساتھ باتھ روم لے گئے لیکن پھر وہ بھول گئے کہ انھوں نے وہ دستاویزات کہاں رکھی تھیں۔

پھر انھیں فوراً یاد آیا کہ وہ یہ دستاویز باتھ روم میں لے گئے تھے جہاں اب کوئی اور گھس گیا تھا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ وہ آدمی غسل خانے سے باہر نکل رہا ہے تو وہ تیزی سے اندر گئے اور لفافہ پکڑ لیا۔ اس اطمینان کے بعد کہ لفافہ اب ان کے پاس ہے وہ اپنے کیبن میں واپس آئے اور اپنا سوٹ کیس پیک کرنے لگے۔

جب سب تیاری ہو گئی تو انھوں نے آخری مرتبہ دستاویز کو دیکھنے کے لیے لفافے کو کھولا۔ لیکن اُن پر تو یہ دیکھ کر ایک بم گر گیا کہ لفافے میں صرف ایک نسبتاً غیر معمولی دستاویز تھی اور ہائیڈروجن بم کے متعلق رپورٹ سرے سے غائب تھی۔

اس کے بعد ایک بے چین تلاش شروع ہو گئی۔ گاڑی کی برتھ کو دیکھا گیا، پورے ڈبے کی تلاشی ہوئی، حتٰکہ واشنگٹن کے یونین سٹیشن کے کمروں اور ریستورانوں کو بھی دیکھا گیا تاکہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے کسی ساتھی مسافر کی ہی شناخت ہو سکے، لیکن یہ سب بے سود ثابت ہوا۔

وہیلر نے سوچا کہ کیا دستاویز کو کسی سوویت ایجنٹ نے چوری کر لیا ہے؟

وہیلر

وہیلر کوانٹم تھیوری اور نیوکلیئر فِشن کے علمبردار تھے اور انھیں ’بلیک ہول‘ کی اصطلاح بنانے کا سہرا بھی دیا جاتا ہے

اب اُن کے پاس جوائنٹ کمیٹی آن اٹامک انرجی (جے سی اے ای) کو اپنے نقصان کی اطلاع دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس کے فوراً بعد کمیٹی کے تین ارکان دستاویز کی تلاش میں مدد دینے کے لیے سٹیشن پہنچ گئے۔

اس کے بعد ’جے سی اے ای‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ولیم بورڈن کو یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑی کہ کاغذات غائب ہو چکے ہیں اور اس کے بعد واشنگٹن میں ایف بی آئی کے دفتر کو اس کے متعلق مطلع کیا گیا۔

پانچ ہفتوں کے اندر تحقیقات کی قیادت کرنے والے سپیشل ایجنٹ چارلس لیونز نے پانچ افراد کو شاملِ تفتیش کیا جو ٹرین میں وہیلر کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔

تاہم پھر بھی کچھ پریشان کُن خلا باقی رہا۔

یہ بھی پڑھیے

جوہری ہتھیار دنیا میں کتنے ہیں اور کن ممالک کے پاس ہیں؟

نوبیل انعام یافتہ خاتون سائنسدان جن کی نوٹ بکس کو چھونا انسانی جان لے سکتا ہے

سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلا

لیونز 30 اور 40 کی دہائی کے ایک ’عام، سادہ لباس میں ملبوس‘ جوڑے اور ان کے نوجوان بیٹے کو، جس نے آخری لمحات میں ٹکٹ خریدے تھے، تلاش کرنے سے قاصر رہے۔ ان کے پاس سٹیٹ روم نمبر 1 کی نچلی اور اوپری برتھیں تھیں۔

اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہیلر کو برتھ کے نچلے حصے نمبر 8 کے مکین بھی نہ مل سکے۔

لیونز نے یہ پتہ لگا لیا کہ اس شخص نے ٹکٹ فلاڈیلفیا کے کاؤنٹر پر سے خریدا تھا، لیکن بدقسمتی سے ریل کمپنی کے سیٹنگ چارٹ پر لکھے ہوئے نام کی شناخت نہ ہو سکی۔ اگرچہ شکاگو میں ایف بی آئی کی لیبارٹری میں اس کی اچھی طرح سے جانچ بھی کی گئی۔

ہائیڈروجن بم پیپر کا مواد کیا تھا؟

جو وہیلر نے اس رات پڑھا اسے آج تک انتہائی صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے۔ لیکن ہم ایف بی آئی کے ساتھ وہیلر کے انٹرویو سے کچھ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

دستاویز نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ تھرمونیوکلیئر ہتھیار کا ایک کامیاب تجربہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ (اس نے اس سے پہلے اس کی ایک چھوٹی قسم کا تجربہ نومبر 1952 میں کیا تھا، جس کا کا کوڈ نیم ’آئیوی مائیک‘ تھا)۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں کی کئی اقسام تھیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عملی استعمال کے لیے دستیاب تھیں۔

وہیلر نے تفتیش کرنے والوں کو بتایا کہ ٹاپ سیکرٹ دستاویز میں ’سپر‘ فیوژن بم بنانے کے بارے میں تکنیکی تفصیلات بھی موجود تھیں، یعنی ’لیتھیم-6 اور کمپریشن اس کے لیے مددگار تھے اور ریڈی ایشن ہیٹنگ نے اس کمپریشن کو حاصل کرنے کا راستہ فراہم کیا تھا۔‘

وہیلر کا خیال تھا کہ ایک اہم جزو کے طور پر لیتھیم-6 کا ذکر سویت یونین کی دلچسپی بڑھا سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے ایف بی آئی کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’تابکاری مواد کے پھٹنے کا کوالٹیٹو آئیڈیا۔۔۔ سب سے اہم انکشاف ہے‘، اور یہ سویت ایٹمی سائنسدانوں کے لیے اہم معلومات ہو سکتی ہیں۔

جزائر مارشل میں Enewetak Atoll پر آپریشن آئیوی سے مشروم کا بادل، پہلا ہائیڈروجن بم ٹیسٹ۔

جزائر مارشل میں ہائیڈروجن بم کا پہلا ٹیسٹ

وہیلر پہلے بھی کئی مرتبہ سرکاری دستاویزات کے متعلق لاپرواہی برت چکے تھے، لیکن کسی کو بھی کبھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ سویت جاسوس ہو سکتے ہیں۔

کیس کی تفتیش کرتے ہوئے ایجنٹ لیونز نے سب سے پہلے سات جنوری کی صبح تمام سویت سفارتی اہلکاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع دی۔

اس کے بعد انھوں نے بقول ان کے ’ریڈیکلز کے ایک وفد‘ کے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا جو اسی ٹرین میں دارالحکومت کی طرف روانہ ہوا تھا جس میں وہیلر تھے۔

اس گروپ کی منزل وائٹ ہاؤس تھی جہاں انھوں نے بینرز اٹھا کر صدر سے جاسوس روزنبرگ کی سزائے موت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنا تھا۔

ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے اس احتجاج کی بے شمار تصویریں اور فلمی ریلیں لیں، اور وہیلر سے ان کا مطالعہ کرایا کہ آیا وہ 6 اور 7 جنوری کو اپنی ٹرین میں سوار لوگوں میں سے کسی کو پہچانتے ہیں۔ لیکن سائنسدان ایک بھی مثبت آئی ڈی فراہم کرنے سے قاصر رہے۔

خوف اور پاگل پن

ہائیڈروجن بم کی دستاویز سرد جنگ میں کسی اس سے زیادہ نازک وقت میں ’لاپتہ‘ نہیں ہو سکتی تھیں۔

پہلے ہی ڈھائی سال سے کوریا کی جنگ جاری تھی اور اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔

چیف تحقیق کار جو میکارتھی کمیونسٹوں کے بارے میں کافی پریشان دکھائی دیتے تھے اور اس سے حکومت میں ایک ہیجان پیدا ہو رہا تھا۔

دوسری طرف ایٹمی جاسوس جولیس اور ایتھل روزنبرگ بھی تھے، جن پر مقدمہ چلنے کے بعد انھیں مجرم پایا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

نیو یارک سٹی: 1950 میں غداری کے مقدمے کے بعد جولیس اور ایتھل روزنبرگ جیل کی وین بوسہ لیتے ہوئے

نیو یارک سٹی: 1950 میں غداری کے مقدمے کے بعد جولیس اور ایتھل روزنبرگ جیل کی وین بوسہ لیتے ہوئے

جولیس اور ایتھل روزنبرگ کے حامی دسمبر 1952 کے اواخر سے وائٹ ہاؤس میں مسلسل دھرنا دے رہے تھے اور صدر ہیری ٹرومین سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے جوڑے کو معاف کر دیں۔

ان سب کے درمیان دستاویز گم ہو گئیں جو بالکل کسی جاسوسی ناول کی کہانی معلوم ہوتی تھی۔

آئزن ہاور کا غصہ

ہو سکتا ہے کہ ہائیڈروجن بم کی دستاویز اس منگل کی رات کو جب وہیلر کی آنکھ لگ گئی تھی ان کے ہاتھ سے پھسل کر کسی طرح ٹرین کے ڈھانچے، سامان یا بستر میں ’غائب‘ ہو گئی ہوں۔

لیکن جب نومنتخب صدر آئزن ہاور کو ایک ماہ بعد اپنی قومی سلامتی کونسل میں دستاویز کی گمشدگی کا انکشاف کرنے کا کام سونپا گیا، تو ان میں سے زیادہ تر کو یقین تھا کہ یہ سویت یونین کے ہی ایجنٹوں کا کام ہے، یہ یقین سب سے زیادہ نائب صدر رچرڈ نکسن کو تھا۔ انھوں نے ایف بی آئی پر زور دیا کہ جے سی اے ای کے ہر رکن سے تفتیش کی جائے۔

آئزن ہاور نے اپنے معاون سے کہا کہ وہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جے ایڈگر ہوور سے کمیٹی کی تمام فائلوں کی ’سیف کیپنگ‘ کے بارے میں رابطہ کریں، تاکہ کوئی اور دستاویزات ’غائب‘ نہ ہو جائیں۔

مزید پڑھیے

جاسوسی کے الزام میں پاکستان کو مطلوب انڈین سفارتکار کے کراچی سے ڈرامائی فرار کی کہانی

ملکوں کے راز غداروں اور چوری شدہ فائلوں کے بجائے گٹروں اور کوڑے سے ڈھونڈنے والے ’ماہر‘

اس دن آئزن ہاور کے مزاج میں گہری تشویش اور غصہ تھا کہ ان کے دور کے آغاز میں اتنی جلدی ہی ایسی آفت آ گئی ہے۔

شاذ و نادر ہی کبھی کسی امریکی صدر نے اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے اپنے جذبات کا اس طرح کھل کر اظہار کیا ہو گا۔

آئزن ہاور 1953 سے 1961 تک امریکی فوجی افسر اور صدر رہے

آئزن ہاور

انھوں نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ’خوفزدہ‘ تھے اور انھیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔ انھیں اس بات پر بھی حیرت تھی کہ وہیلر کے پاس موجود دستاویز کو ’ٹاپ سیکرٹ‘ کے بجائے ’سیکرٹ‘ کا غلط لیبل کیوں لگایا گیا تھا اور کسی مسلح گارڈ کے بجائے کیوں اسے صرف ایک مصدقہ میل کے ذریعے پرنسٹن میں یونیورسٹی کے پروفیسر کے دفتر بھیجا گیا تھا۔

صدر نے ایک مرتبہ غصے میں کہا کہ سیکورٹی کی اس تباہ کن خلاف ورزی کے ذمہ دار جے سی اے ای کے اہلکار اگر فوج میں ہوتے تو ’انھیں گولی مار دی جاتی۔‘

دستاویز کہاں تھی؟

مشرقی امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے سینکڑوں لوگوں کا انٹرویو کیا اور میلوں تک ریل کی پٹریوں اور درجنوں ریل کاروں کی تلاش لی، لیکن انھیں کچھ نہ ملا۔

تلاش ختم ہو گئی، اور آئزن ہاور نے دوسرے اہم معاملات کی طرف رجوع کرنا شروع کیا، جن میں سب سے اہم معاملہ کوریا میں جنگ کو ختم کرنے کی کوشش تھا۔

ہو سکتا ہے کہ شاید کسی دن ہائیڈروجن بم کی دستاویز کریملن کی آرکائیوز سے برآمد ہو جائیں۔

جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ صرف سات ماہ بعد، اگست 1953 میں، سویت یونین نے شمال مشرقی قازقستان میں اپنے پروٹو ٹائپ ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔

جہاں تک ’جانی‘ وہیلر کا تعلق ہے، انھیں صرف اٹامک انرجی کمیٹی کے چیئرمین گورڈن ڈین نے بس جھاڑ پلائی۔ وہ ہائیڈروجن بم پراجیکٹ کے لیے سرمایہ تھے اس لیے انھیں برطرف نہیں کیا جا سکتا تھا۔

کئی برسوں بعد اپنی یادداشت میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہیلر کہتے ہیں: ’یہ سوچنا اب بھی اتنا ہی دلچسپ ہے کہ کیا میری دستاویز کسی سویت ایجنٹ نے چوری کی تھیں۔ یہ خود ہی غائب نہیں ہو سکتیں۔‘

راجر ہرمسٹن ایک مصنف اور صحافی ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ٹو منٹس ٹو مڈ نائٹ: 1953دی ایئر آف لیونگ ڈینجرسلی‘ ہے جو 2021 میں بائیٹ بیک پبلشنگ نے شائع کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments