فریج کی پاکستانی لوگوں پر خاص مہربانیاں


ہم پاکستانی لوگ بھی بڑے عجیب و غریب قسم کے ہیں بلکہ ان کے اپنے حساب سے دیکھا جائے تو منفرد۔ منفرد اس لحاظ سے کہ روزمرہ کی کئی چیزوں اور کاموں کو جانتے ہوئے بھی کہ یہ ٹھیک یا درست نہیں لیکن کیے جار ہے ہیں اور مسلسل کیے جار ہے ہیں اور دل ہی دل میں اچھا بھی نہیں سمجھتے یا پھر کبھی کبھار گھر کے کسی کونے سے دادی یا دادے کی آواز گونجتی ہے کہ ”کیا کر رہے ہو تم سارے“ یہ آواز مکان کی چاروں دیواروں کی ساتھ جا کر ٹکرا جاتی ہے مگر اس بہو یا بیٹی کے کان میں نہیں پڑتی جس کے لیے یہ سب کہا گیا تھا۔

دادی مسلسل دیکھ رہی ہوتی کہ گھر میں کیا چل رہا ہے۔ گھر میں آنے والی مٹھائیاں اور فروٹ آتے ساتھ ہی فریج میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ پھر کوئی بڑا مجبور ہی فریج کھول کر مٹھائی کا ایک دانہ نکالتا ہے یا کوئی پھل نکالتا ہے اور کھا کر سائیڈ مار جاتا ہے اور یہ گوارا نہیں کرتا کہ مٹھائیاں یا پھر پھلوں کو کسی چھوٹی سی ٹوکری میں ڈال کر باہر رکھ دیں تاکہ گھر کے باقی افراد بھی کھا سکیں۔ اور یہ سوچا جاتا ہے کہ جسے کھانا ہو گا وہ خود نکال کر کھا لے گا۔

پھر بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے ہمیں اس قدر آلس کر دیا ہے کہ کوئی چھوٹے سا چھوٹا کام بھی ہو تو ہمارا کرنے کا دل نہیں کرتا۔ کوئی اتنی بھی زحمت نہیں کرتا کہ فریج میں سے مٹھائی اور فروٹ کو نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا جائیں۔ فروٹ اور مٹھائی ٹیبل پر پڑے رہنے کی وجہ سے اس کے زیادہ سے زیادہ چانسز ہوتے کہ اسے جلد ہی پیٹ کی نظر کر دیا جائے۔ کوئی نہ کوئی چلتے پھرتے سیب یا کیلا اٹھا ہی لے گا۔ مگر یہاں تو ہر چیز کے آتے ساتھ ہی اسے سب سے پہلے فریج کی ہوا لگائی جاتی ہے کہ کہیں اس کا ذائقہ نیچرل نہ آ جائے۔

پھر ایک دو دن نہیں، کئی دن وہ چیز فریج میں پڑی رہتی ہے اور بالآخر امی جان وہی مٹھائیاں اور فروٹ کو یہ کہتے ہوئے نکال رہی ہوتی ہے کہ یہ بھی خراب ہو گیا اور وہ بھی خراب ہو گیا ہے۔ یہ سارا ماجرا دادی یا دادا کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر ان سے رہا نہیں جاتا کہ ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے پیسوں کا ضیاع تو کر ہی رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ قدرت کی نعمتوں کی بے قدری بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ان سے رہا نہیں جاتا اور بالآخر ان کے ہونٹوں کی جنبش آواز کا روپ دھار ہی لیتی ہے۔ پھر یہ آواز ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ضرور ہے مگر پلے نہیں پڑتی۔

مجھے آج بھی اچھی یاد ہے کہ بچپن میں پھلوں سے نفرت کروانے میں فریج کا کلیدی کردار تھا۔ گھر میں کوئی بھی پھل آتا تو اسے فوراً شاپر سے نکال کر سب سے پہلے فریج کے نچلے حصہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ میرے شام کو گھر لوٹنے سے پہلے پھل کے انگ انگ میں ٹھنڈک سما جاتی۔ سردیوں کے موسم میں تو ویسے بھی ٹھنڈی چیز زہر لگتی ہے۔ یوں ٹھنڈے پھل کو ہاتھ لگا کر پہلے ہی دل عجیب سا ہو جاتا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ یہ ایک فالتو اپلائنس ہے۔ بوقت ضرورت ہی ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ یہ بھی اپلائنس بھی اچھی ہے اگر اسے بوقت ضرورت ہی استعمال کیا جائے تو۔

مگر ہمارا تو یہ شیوہ رہا ہے کہ کسی چیز کو بھی اس کے مقصد کے مطابق استعمال نہیں کرنا۔ اوپر سے بچ جانے والوں کھانوں کی ایک دو دن نہیں بلکہ ہفتوں کے لیے فریج میں سٹور کرتے ہیں۔ پھر نوالہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وہ ذائقہ نہیں رہا۔ بھئی کہاں سے آئے گا ذائقہ۔

پھر بھلا ہو مائیکرو ویو اوون کا، اس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ چیزیں بنا بنا کر فریج میں رکھتے جاؤ اور بوقت ضرورت فریج سے نکال کر دو منٹ اوون کا چکر لگایا تو یہ لیجیے جناب گرم گرم کھانا آپ کے سامنے ہیں۔ ذائقہ اور تازی بنی چیز کے کھانے کا سواد گیا تیل لینے۔ مسلسل لگاتار اوون استعمال کرنے کے نقصانات وہ الگ سے۔

رمضان میں تو پھر وسیع پیمانے پر رول پٹیاں اور ٹکیاں بنا کر فریز کر دی جاتی ہیں اور روز نکال نکال کر تلتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ تھوڑی سی تگ و دو کر کے روز کی بنیاد پر چیزیں بنائیں جائیں۔ خیر ہم اب تو ان چیزوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ نہ تو ہمیں کسی چیز کی تازگی کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی اب ہماری زبان بھی اس قابل ہے کہ کسی اچھے ذائقے کو پکڑ سکے۔ تھوڑے لکھے تو زیادہ جانیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments