پاکستانی ڈرامہ سماجی بیگانگی کا شکار کیوں ہیں؟


ایک زمانے تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ”ڈرامہ“ سماج کے عکاس ہوتے ہیں، یعنی سماج کی مثالی روایات اور اقدار کو ڈرامہ کے ذریعے فروغ دیا جاتا تھا جبکہ سماج کی برائیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے کر کے اس کے اسباب اور سد باب کو ”موضوع“ بنایا جاتا تھا۔ اس حوالے سے یونانی فلسفی ارسطو نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”بوطیقا“ میں ”ڈرامہ“ کی جو تعریف و تشریح بیان کی ہے وہ آج کے سماج کا ”مقدمہ“ ہے جو ان ”تنقیدی سوالات“ کا احاطہ کرتی ہے جو عہد حاضر میں ڈرامہ کی ”حیثیت و اہمیت“ پر اٹھائے جا سکتے ہیں۔

ارسطو کے نزدیک ڈرامہ سے مراد وہ انسانی عمل ہے جس کی نقل کی جائے، یعنی ڈرامہ انسانی اعمال کی نقال کو کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں ”ایکٹر“ لفظ کا استعمال بھی ان ہی معنوں میں کیا جاتا ہے جو اپنے ”لہجے اور حرکات“ سے کسی انسانی عمل کی نقل اتارتا ہے۔ جسے سنسکرت یعنی ہندی میں ”ناٹیکا“ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ ابتدائی سطر میں کہا گیا ہے کہ ”ڈرامہ“ سماج کے عکاس ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آج کے دور میں ڈراموں کو سماج کا عکس کہا جاسکتا ہے۔

یہی وہ سوال ہے جو آج کے سماج کا ”مقدمہ“ ہے۔ اس سوال کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ آج کے ڈرامے سماجی عکاسی کی بجائے سماج کو ”چیلنج“ کر رہے ہیں اور اس کی مثالی روایات اور اقدار کو تہس نہس کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہو گا جبکہ یہ المیہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ اب ڈرامے پورے کے پورے سماج کی ”تبدیلی“ کی وجہ بھی بن رہے ہیں جس میں انسانی رشتوں کے تقدس پامال ہو رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سماجی برائیوں کی ایک بنیادی وجہ ڈراموں کے لیے لکھی جانے والی وہ ”کہانیاں“ ہیں جو اپنے اندر ”سماجی بیگانگی“ رکھتی ہیں، یعنی سماجی برائیوں کو انسانی جبلت کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کے ڈراموں میں ہونے والی منظر کشی سے سماجی بگاڑ میں کمی آنے کی بجائے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس ضمن میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز ( 14 مئی 2022 ) کے دو مختلف تھانوں میں درج ہونے والے مقدمات دلیل کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ تھانہ کورال کے علاقے جھنگ سیداں میں ایک شخص اپنی ”سالی“ کی 16 سالہ بیٹی کو بھگا کر لے گیا ہے۔ اسی طرح تھانہ گولڑہ کے علاقے پنڈ سنگڑیال میں ایک شخص اپنی ”سوتیلی بیٹی“ کو لے کر بھاگ گیا ہے اور حیران کن طور پر اس لڑکی کی عمر بھی 16 سال ہے۔

اسی طرح گزشتہ دنوں کراچی کی دو سے تین کم عمر لڑکیوں کے حوالے سے اس طرح کی خبریں سامنے آئیں تھیں کہ وہ گھر سے بغیر بتائے غائب ہو گئیں ہیں جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کرلی ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ خواتین سے متعلق گھر سے ”بھاگنا“ جیسے الفاظ غیر مہذب معلوم ہوتے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے استعمال کیے گئے ہیں جنھیں سماجی جبر کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے سماج میں اس طرح کے واقعہ کو اس انداز اور طرز میں بیان کیا جاتا ہے۔

بات ہو رہی تھی آج کے ڈراموں کے حوالے سے جو یقیناً اپنے اندر کسی حد تک ”سبق آموز“ کہانی رکھتے ہوں گے لیکن جس انداز میں یہ ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں وہ ہمارے سماج کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ”سماج کے اندر ایک نیا سماج جنم لینے لگا ہے“ جو حقیقی سماج کو نہ صرف چیلنج کرنے لگے ہے بلکہ نئی نسل کے لیے غیر معمولی کشش بھی رکھتے ہیں، اوپری سطور میں جو وقوعے بیان کیے گئے ہیں وہ اسی نئی سماجی روش کا نتیجہ ہیں۔

بہر کیف یہاں ڈرامہ یا ڈرامہ انڈسٹریز پر تنقید کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سماج کو ”نسلوں کے درمیان عقائد، اقدار اور رویوں کے اختلاف“ سے کیسے بچایا جائے جو کہ تسلسل کے ساتھ سر اٹھا رہے ہیں جسے ہم انگریزی میں ”جنریشن گیپ“ اور فارسی اور اردو میں ”شگاف نسلی“ کہتے ہیں جو کہ ہمارا ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈرامہ کے کہانی نویس اور ہدایتکاروں پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماج کو ”شگاف نسلی“ سے بچانے کے لیے اپنا مثالی کردار ادا کریں کیونکہ یہ سماج کے سب سے زیادہ باشعور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے اندر حساسیت کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، یعنی ان کا عمل ”رجحانات“ متعین کرتا ہے۔

پاکستانی سماج کا آج بھی سب سے بڑا المیہ ”قومی کلچر“ کا نہ ہونا ہے، یعنی ہم آج تک اپنے قومی کلچر کا تعین نہیں کرسکے ہیں جبکہ 60 کی دہائی میں اس حوالے سے شاعروں اور ادیبوں نے بہت کچھ لکھا اور قومی کلچر تشکیل دینے کی کوشش میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کیا، اگر یہی کوشش ڈراموں کے ذریعے کی جاتی تو آج ہمیں قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ بہر کیف اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے ہمیں اپنے ڈراموں میں ملک کے ہر حصوں کی زبان و ثقافت میں پائے جانے والی یکسانیت کو تلاش کرنا چاہیے اور علاقائی تہذیبوں میں پائی جانے والی مماثلت کی بنیادوں پر قومی کلچر تشکیل دینے اور اسے اجاگر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس کے لیے ”ڈرامہ انڈسٹریز“ اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments