سیاسی انتشار


موجودہ سیاسی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی کنفیوژن بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے تقریباً چار سال تک حکومت کی۔ ان چار سال میں زیادہ تر وزارتوں میں بجائے کوئی سمت متعین کرتے انہوں نے وزارتوں میں تبدیلیاں کر کے وقت گزارتے رہے۔ عوام نے انہیں اداروں کی اصلاحات اور بہتر معیشت کے لیے اقتدار میں لائے تھے۔ ان دونوں معاملات پر کام کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی ساری توانائی غیر ضروری سیاسی لڑائیوں میں صرف کر دی۔

بجائے حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دے، سنگین تر ہوتے معاشی بحران کے حل پر غور کرے، فعال پارلیمان اور موثر جمہوری نظام کی تکمیل کرے، محض اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں پر اکتفا کیے ہوئے تھے۔ خان صاحب نے الیکشن میں کرپشن کے خاتمے کی بات کی اور حکومت میں آتے ہی پاکستان کو 118 درجہ بندی سے 140 پر لے آئے۔ عوام نے ان کی طرز حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ضمنی الیکشنوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو ووٹ دے کر کیا۔

تحریک انصاف کی حکومت اپنے آخری ادوار میں انتہائی غیر مقبول ہو گئی تھی ملک کے معاشی مسائل میں بے انتہا اضافہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے مقتدر حلقے جو ان کو لائے تھے وہ بھی ان سے نالاں نظر آئے۔ پنجاب میں وزیر اعلی اور ایک اہم محکمے کے سربراہ کی تقرری پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے۔ بین الاقوامی سطح پر یوکرائن تنازعہ کی وجہ سے پوری دنیا کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت مزید کسی اور تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

جس کے بعد مقتدر حلقوں نے عمران خان حکومت کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن کو گرین سگنل دیا۔ ابتدا میں اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ حالات میں عدم اعتماد پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن بات چیت چلتی رہی اور اپوزیشن کو بتا دیا گیا کہ اگر وقت پر فیصلے نہ کیے گئے تو خان صاحب ایک ایسے فرد کو اگلے چیف کے طور پر لانا چاہ رہے ہیں جو اگر آ گئے تو اگلے پانچ سال تک بھی خان صاحب ہی رہیں گے اور اپوزیشن کے لئے تمام راستے بند ہو جائیں گے جس کے بعد مشترکہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔

عدم اعتماد کے بعد جو ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے یہ بیانیہ دینا شروع کیا کہ ان کے خلاف بین الاقوامی سازش ہوئی ہے جس کے لئے وہ ایک خط کو جواز بناتے ہیں۔ بین الاقوامی طاقتیں کبھی بھی خط کے ذریعے سازش یا دھمکی نہیں دیتے۔ ان کے پاس دیگر متبادل ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف نے پاکستان بھر میں احتجاج کی کال دی۔ حکومت جانے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ ملک میں مہنگائی ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے۔

احتجاج کی روایت اپوزیشن کا جمہوری حق ہے لیکن اس حق کو استعمال کرتے وقت اس کے انجام کے متعلق بھی سوچا جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اس سے امن و امان، نظم و نسق اور ملکی معیشت پر کیا تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ بدقسمتی سے حالیہ وقتوں میں جو تحریکیں چلیں ان میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ چند ہزار لوگ ہڑتال یا دھرنے سے پورے ملک کو ہائی جیک کر لیتے ہیں اور زبردستی اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ جن سے اکثریت کا متفق ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

ہڑتالیں، دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ مسائل کا حل نہیں۔ ان سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دھرنوں سے اقتصادی نقصانات تو ہوتے ہی ہیں لیکن ہر بار ہونے والا دھرنے ریاست کی عملداری کو بھی چیلنج کرتا ہے، جو کسی طور بھی معیشت کے لیے سود مند نہیں ہے۔ اس وقت عوام پریشان ہے دن بہ دن ملکی معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی ہے کہ جب ایک حکومت غیر مقبول ہو گئی تھی جب عوام میں ان کی ساکھ ہر گزرتے دن کے ساتھ گر رہی تھی۔

تو کیوں حکومت کو گرا کر سیاسی شہید بنایا گیا۔ کیوں حکومت کو وقت نہیں دیا گیا؟ میرے ذاتی خیال میں اگر اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے بجائے خود فیصلہ کرتے اور حکومت کو مزید کچھ وقت دیتے تو بجٹ کے بعد یہ عوام میں انتہائی غیر مقبول ہوتی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ پٹرولیم اور دیگر مصنوعات پر سبسڈی کو حتم کرنا ہو گا۔ لیکن یہ سخت فیصلے تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہوں۔

حکومت سمجھتی ہے اگر معیشت کی بہتری کے لئے سخت فیصلے کیے گئے تو وہ عوام میں غیر مقبول بھی ہو سکتے ہیں اور اگلے الیکشن میں اس فیصلوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت فیصلہ سازی کے حوالے سے کنفیوز دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ اسٹبلشمنٹ کے اندر بھی اپوزیشن کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی فیصلہ کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جو سب سے تشویش ناک پہلو ہے وہ حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف رائے اب ذاتی دشمنی میں بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ماضی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایشوز پر اختلاف رائے ہوتا تھا۔ تحریکیں بھی چلتی تھیں محاذ آرائی اور عدم اعتماد تک نوبت آجاتی تھی مگر سماجی اقدار کا پاس ضرور رکھا جاتا ہے ایک دوسرے سے راہ رسم برقرار رکھی جاتی تھیں الزامات زیادہ تر انتخابی مہم کا حصہ ہوا کرتے تھے تاکہ ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہوا جا سکے مگر سیاسی محالفت میں کسی کو سیکورٹی رسک یا غدار کہنا تشویش ناک ہے۔ سیاسی اختلاف رائے جب کردار کشی میں بدلتی ہے تو اس سے سب سے زیادہ فائدہ غیر جمہوری لوگوں کو ہوتا ہے۔

سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ ان کے سیاسی رول کو کم کرنے کے لئے کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ سیاست کو گالی بنائی جا رہی ہے۔ عوام میں سیاستدانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے یہ سب کچھ با قاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ اداروں کی پالیسی کے پیچھے منظم دماغ کام کرتے ہیں ادھر سیاسی رہنما خود کو عقل کل سمجھ کر چلتے ہیں۔ لیکن ان کی سیاسی جماعت منظم نہیں ہوتے ان کے ساتھ ایسے دماغ نہیں ہوتے جو ان اداروں کے منظم پلان اور ارادوں سے ان کو با خبر رکھ سکے یا ان کا مقابلہ کرے۔

موجودہ صورتحال کے پس منظر میں کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اور اس کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم کے خاتمے صوبوں کو دیے گئے اختیارات کی واپسی جیسے اقدامات ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہو گی۔ ملک کے حالات ٹھیک نہیں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا موجودہ حالات میں ہم سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ ؤہ سوال ہے جس کا جواب ارباب اقتدار کو تلاش کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments