حکومت کہیں نہیں جا رہی


اس وقت جو حالت نون لیگ کی ہے شاید وہ کسی بھی جماعت کے نہیں۔ جن کی امید پر وہ حکومت میں آئے تھے ان میں سے کچھ قوتوں نے اپنی پرانی روش اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ یار لوگ یہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ زرداری نے نون لیگ کے ساتھ وہ کیا ہے جس کو صدیوں پرانا بدلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا حکومت سنبھالنے سے پہلے خیال وہی پنجاب والا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جیسے پنجاب میں گھوم پھر کے پانی میں بوٹ پہن کر کھڑے ہو کر چار افسروں پر رعب ڈال کر اور ان کو معطل کر کے خبروں کی زینت بنتے رہتے تھے اب بھی ویسا ہی ہو گا۔

لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ پنجاب میں اور انٹرنیشنل لیول میں بہت فرق ہے۔ پنجاب میں آپ کو صرف بیوروکریسی، ادارے ڈیل کرنے ہوتے تھے۔ آپ چار ملازمین کو معطل کر کے، چار اداروں کا وزٹ کر کے خبروں کی زینت بن جاتے تھے۔ جبکہ جمع تفریق صفر ہوتا تھا۔ صوبہ چلانے میں اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ ایک وزیراعظم کو پوری دنیا کے ساتھ اپنے معاملات دیکھنے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم معتدل مزاج شخصیت کا حامل شخص ہونا چاہیے۔

عمران خان کی ناکامی کی کچھ وجوہات ان کا جذباتی پن بھی تھا۔ سیاست میں آپ ہمیشہ غلط بات پر نہیں ڈٹ سکتے اور نہ ہی آپ نے ہمیشہ فرنٹ فٹ پہ کھیلنا ہوتا ہے۔ مہنگائی کا جن اس وقت بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ جبکہ شہباز شریف صاحب بے بس نظر آ رہے ہیں۔ سب پارٹیاں اپنا حصہ لے کر سکون سے بیٹھی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اس وقت امریکہ، برطانیہ، سعودیہ، ایران اور دوسرے تمام انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے مہروں سے اپنے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔

اگلی ٹرم کے لئے اپنا ہوم ورک مکمل کر کے بھرپور میچ کھیلنے کی کوشش میں ہیں۔ عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں پیٹرول، آٹا، اشیاء خورد و نوش اور ادویات کی قیمتوں کے باعث حکومت معاملات کو کنٹرول نہیں کر پایا گی۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ وجہ کیا ہے؟ مقتدر حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف صاحب کی نواز شریف صاحب کے ساتھ جو لندن میں ملاقات ہوئی ہے اس میں بہت کچھ فائنل کیا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے کچھ معاملات کی گارنٹی مانگ رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ پر غصہ بھی ہیں اور ان کے سامنے اپنے مطالبات بھی رکھا رہے ہیں۔ کہ ہمیں گارنٹی دی جائے کہ اگلا الیکشن شفاف ہو گا۔ کوئی ایسا ویسا تجربہ نہیں کیا جائے گا جیسے پچھلے الیکشن میں کیا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے 70 سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں کہ پاکستان میں آج تک جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بھٹو کی شہید کرنے تک اور کارگل سے لے کر جلاوطنی تک کے تمام سوالات اسٹیبلشمنٹ کے آگے رکھ رہے ہیں کہ ہمیں یقین دلوایا جائے اب کوئی ایسا کھیل نہیں کھیلا جائے گا۔ اگر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو تب وہ حکومت اور معیشت سنبھالیں گے ورنہ نون لیگ کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت گروپوں میں تقسیم ہے ایک گروپ موجودہ حکومت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروپ فوری الیکشن کی صورت میں عمران خان کو دوبارہ حکومت دینے کا حامی ہے۔

مقتدر قوتیں یہ بات سمجھ چکی ہیں اگر یہ منتخب نمائندے مہنگائی کنٹرول نہ کر سکے تو نگران حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ مہنگائی پر کوئی لائحہ عمل طے کرے۔ لہذا حکومت کہیں جاتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ ہاں آپ پراپیگنڈا جتنا چاہیے مرضی چاہے کر لیں وہ الگ بات ہے۔ میرے نزدیک اگر ابھی الیکشن تین چار ماہ کے اندر ہوئے تو مہنگائی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گی یہی وجہ ہے کہ حکومت اتنا جلدی کہیں نہیں جا رہی۔ جس وقت تک اس حکومت کو مقتدر ادارے مضبوط نہیں کرتے اور الیکشن کروا دیتے ہیں تو معاشی صورتحال کے پیش نظر ایسا بحران سر اٹھائے گا جس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔

اب یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ اگر عمران خان کو الیکشن میں شکست ہوتی ہے تو انہوں نے نتائج تسلیم نہیں کرنے اس بنیاد پر بھی ابھی الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ خان صاحب جلسے بے شک کامیاب کر رہا ہیں لیکن جلسوں میں افراد مقامی قیادت لے کر آتی ہے اور اگر مقامی قیادت ہاتھ آج کھڑے کر دے تو جلسوں کی 70 پرسنٹ روشنی ماند پڑ جائے گی۔ ہاں پی ٹی آئی کی وہ اعلی قیادت جو بعد میں پارٹی سنبھالنے کے چکروں میں ہے وہ آخری وقت تک خان صاحب کے ساتھ رہے گی۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تو جو کچھ لاہور بار میں ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ دھکم پیل، بدنظمی، تقریر نہ کرنے دینا اسٹیج تک نہ پہنچنے دینا یہ بات عیاں کرتی ہے کہ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ سے بڑی قوت نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سے لے کر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ تک اس وقت پاکستان میں الیکشن کی حامی نہیں ہے۔ کیونکہ روس اس وقت جنگ میں شکست کے قریب ہے۔ یہ بات سابق چینی سفارتکار گاؤ یوشینگ نے کی ہے جو کہ یوکرین میں سفیر رہے ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے اگر چین یہ بات کر رہا ہے تو چین رشیا کا سب سے بڑا اتحادی اور حامی ہے اور وہ اندر کے تمام حالات اور معاملات کی خبر رکھتا ہے۔ میکڈونلڈ اپنا سیٹ اپ روس سے ختم کر رہا ہے اور اپنے اثاثے تک وہاں بیچ رہا ہے۔

میکڈونلڈ کے اس وقت 62000 ملازمین روس میں پریشانی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ فرنچ آٹو کمپنی جائنٹ رینالٹ نے روس چھوڑنا کا فیصلہ کر لیا ہے اس کمپنی کے 45000 ملازمین ہیں۔ جنگ کے مسائل کی وجہ سے روس میں بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں روس چھوڑ رہی ہیں۔ کمپنیوں کا مسئلہ ہے ان کو یورپ اور امریکہ  سے بہت ساری چیزیں درآمد کرنی ہوتی تھیں وہ بند کی جا رہی ہیں۔ روس کو جو جھٹکا یوکرائن کی جنگ سے لگا ہے روس جلدی سنبھلنے والا نہیں۔

جب تک روس کی معیشت کا بیڑہ غرق نہیں ہوجاتا اب یورپ اور امریکہ روس کو اس جنگ میں الجھا کر رکھیں گے۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد تاریخ میں یوکرائن کی جنگ روس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے۔ روس کی کارکردگی یہاں بھی صفر ہے۔ یہاں پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو داد دینی بنتی ہے انہوں نے روس کے حالات کا ادراک آج سے تین چار ماہ پہلے کر لیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سابقہ وزیر اعظم اپنی ازلی ضد کی وجہ سے ایک ایسے وقت میں رشیا جا پہنچے جب روس صرف یوکرائن سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے جنگ کے لئے پر تول رہا تھا۔ یہاں پاکستان کا نیوٹرل رہنا بہت ضروری تھا۔ اگر انٹرنیشنل طور پر ان حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی یہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔

آئی ایم ایف، امریکہ، سعودیہ اور یو اے ای پاکستان کی مدد تو کرنا چاہتے لیکن اس مدد کے بدلے ان کے اپنے مطالبات ہیں اور ان مطالبات میں مہنگائی میں ریلیف شامل ہے۔ البتہ اس امداد کے بدلے تمام پالیسیوں کا تسلسل جاتے ہیں جو ان کے اس خطے میں مفادات ہے۔ جس میں افغانستان، انڈیا، روس اور چائنہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی شامل ہیں۔ اس کے لئے ان کا مطالبہ ہے کہ فوجی اور تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت اس بات پر متفق ہو۔

مرکزی حکومت تو بڑی دور کی بات ہے پنجاب حکومت بھی کہی جاتی نظر نہیں آ رہی۔ عدالت نے فیصلہ نہیں دیا صرف صدر کو جواب دیا ہے۔ اس میں اپنی رائے دی ہے۔ رائے فیصلہ شمار نہیں ہوتا۔ عدم اعتماد جمہوریت کا حسن ہے۔ یہاں عدالت آرٹیکل 95 کو نظر انداز کر کے 63 اے کو 17 اے کے ساتھ ملا رہی ہے جس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ اگر عدم اعتماد کو ختم کر دیا جائے گا تو جو بھی وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب ہو گا وہ اسمبلیوں میں امیرالمومنین بن کر بیٹھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments