اتفاق رائے کے بغیر انتخابات کا بھی فائدہ نہیں


ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہمیشہ وطن عزیز کو حالت انتشار میں ہی دیکھا ہے لیکن اس قسم کی بد ترین تفریق اور انارکی کا کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ پہلے گنے چنے لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تھے اور باقی پرو اسٹیبلشمنٹ مگر اب پوری قوم ہی اسٹیبلشمنٹ سے نالاں ہے۔ اسی طرح عدالتوں کا اعتبار بھی اٹھ چکا ہے کوئی طبقہ ایسا نہیں رہا جو عدالتوں پر مکمل یقین کرنے کو تیار ہو۔ معاشرہ اس وقت بری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ معاملہ سیاسی ہو یا قومی سلامتی سے متعلق، مذہبی اور فقہی اختلاف ہوں یا معاشرتی اور سماجی مسائل کہیں اتفاق رائے ہے اور نہ کوئی دوسرے کی سننے کا روادار۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو سیاسی قائد اس انتشار میں کمی لا سکتے ہیں وہ اپنی تقریروں سے مسلسل جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ مخالف کی بات توجہ سے سننے کا کسی میں حوصلہ ہے نہ کوئی کسی کو برداشت کرنے پر تیار ہے۔ ایک فریق کا سچ دوسرے کے لیے جھوٹ لغو اور بے بنیاد ہے تو دوسرے کی خدا لگتی بات بھی پہلے کے لیے سازش، بیرونی ایما اور ملک و قوم سے غداری کے مترادف۔ سیاسی قائد نعوذ باللہ قوم کے لیے اب خدا کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔

ہر فرد نے اپنے نظریات اور سوچ کے مطابق بت تراش رکھے ہیں۔ قائد جو کہے اس کے چاہنے والے خود تحقیق کے بجائے، آمنا صدقنا کہہ رہے ہیں۔ سیاسی وابستگی کی بنیادوں پر مخالفانہ رویہ اس قدر مستحکم ہو چکا ہے کوئی قرآن و حدیث کا حوالہ بھی ڈھونڈ کر لا دے مگر لوگ اپنے لیڈر کہ بات کو ہی حرف آخر مانتے ہیں۔ اس قوم میں اب کسی کو حقائق جاننے کی حاجت رہی ہے نہ سچائی تک پہنچنے کی جستجو۔ قوم کی سوچ اب اس طرح یرغمال ہے کہ گردن گھما کر اردگرد دیکھنے کی کسی میں مجال نہیں۔ کوئی سر پھرا اگر متوازن بات کرنے کی کوشش کر لے تو کسی نہ کسی طرف سے غداری کے سرٹیفیکٹ اور کفر کے فتوے جاری ہو جاتے ہیں۔

پون صدی ملک و قوم کے ارتقا اور کامیابی کے لیے کم نہیں۔ اس عرصے میں تین نسلیں گزرتی ہیں۔ نیت اگر صاف ارادہ اٹل اور دلوں میں نفاق نہ ہوتا اس مدت میں ہم بھی زمین و آسمان کی وسعتیں با آسانی طے کر سکتے تھے۔ ہماری بعد آزاد ہونے والی اقوام کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ ہمارے آپسی جھگڑے ہی نہیں نمٹ رہے۔ مان لیں کہ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن خود ہیں اور ہمارے اجتماعی شعور اور کوتاہ سوچ کے ہوتے ہوئے کسی کو ہمارے خلاف سازش کرنے کی ضرورت نہیں۔

حد یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے قائم خوف کی فضا کی لپیٹ میں اب ملکی مفاد بھی آ چکا ہے اور فوری و انتہائی اہمیت کے حامل فیصلے کرنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہیں رہا۔ فروری میں جب عمران خان کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ان کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے تو انہوں نے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنے کوتاہ سیاسی فوائد کی خاطر یہ جانتے ہوئے کہ ان کے اقدام کے ملکی معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے، پیٹرولیم مصنوعات پر 10 روپے فی لیٹر اور بجلی کے نرخوں پر 5 روپے فی یونٹ سبسڈی کا اعلان کر دیا تاکہ آنے والی حکومت کے لیے پہلے دن سے مشکلات پیدا ہو جائیں۔

اب روز وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل قوم کو یہ تو بتاتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈیز موجودہ حکومت کے لئے ”بارودی سرنگ“ ثابت ہو رہی ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں خبردار کرتے ہیں کہ صورتحال یونہی جاری رہی تو ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ لیکن عمران خان کی مخالفت کے خوف سے وہ بھی ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے یہ فیصلہ نہیں لے پا رہے۔

اس وقت حکومت کو جس قدر خسارے کا سامنا ہے زیادہ دیر تک پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی مد میں سبسڈیز جاری رکھ ہی نہیں رہ سکتی۔ موجودہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ یہ سبسڈیز حکومت ختم کر رہی ہے لیکن اب تک وہ اپنی یقین دہانی کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ حکومت اگر اسی طرح گومگو کا شکار رہی تو آئی ایم ایف کا پروگرام تعطل کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ رواں مالی سال میں ریکارڈ چالیس ارب ارب ڈالرز کے قریب تجارتی خسارہ ہونے جا رہا ہے آئی ایم ایف کا پروگرام اگر تعطل کا شکار ہوا تو ایک ڈیڑھ ماہ میں خدانخواستہ ملک بیرونی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بغیر پاکستان کی معیشت ڈیفالٹ سے نہیں بچ سکتی اور جب تک آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہو گا کوئی دوست ملک بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نون لیگ کوئی سخت فیصلہ لے کر اپنا سیاسی نقصان نہیں کر سکتی لہذا وہ انتخابات کا اعلان کر دے اس کے بعد نگران حکومت خود ہی یہ بھاری بوجھ اٹھائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیا ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ تین سے چھ ماہ اسی طرح مزید گزر جائیں گے۔

بالفرض آج نئے انتخابات ہو جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کو اس کی منشاء کے مطابق اکثریت نہیں ملتی تو وہ ان نتائج کو تسلیم کرے گی اور نئی حکومت کو سکون سے کام کرنے دے گی؟ اور اگر بالفرض پی ٹی آئی دوبارہ برسر اقتدار آ بھی جائے تو اس کے پاس کیا فارمولا ہے جو پچھلے ساڑھے تین سال اپلائی نہیں کر سکی اور اب اسے بروئے کار لاکر ملکی معیشت کو وہ پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ عمران خان کی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب کوئی ابہام ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد بھی اپنی اذیت پسندانہ نفسیات کی تسکین کی بجائے معیشت اور گورننس پر فوکس کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں ملک کو ایک فریش مینڈیٹ کی حامل مضبوط حکومت کی ضرورت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں اگر محض عمران خان سے گھبرا کر بغیر اصلاحات عجلت میں انتخابات میں کا فیصلہ کیا تو اس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں جتنے مرضی انتخابات ہو جائیں نیشنل ڈائیلاگ کے سوا اب بہتری نہیں آ سکتی۔ ہمارا مسئلہ فوری یا وقت پر انتخابات نہیں بلکہ جمہوری استحکام، غربت و بیروزگاری کا خاتمے اور معاشی و خارجی جیسے چیلنجز پر اتفاق رائے ہے۔

ہمارے ہاتھ سے ریت کی طرح وقت تیزی سے سرک رہا ہے فوری طور پر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر ایک مکالمہ کرنا چاہیے جس میں نظام احتساب اور اداروں کی حدود کے تعین کے ساتھ متفقہ معاشی پالیسی، تعلیم، صحت اور بلدیاتی نظام بھی زیر بحث ہونا چاہیے۔ یہی واحد طریقہ ہے ملک اور قوم کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کا ورنہ جتنے مرضی انتخابات کرالیں آج نہیں تو کل خاکم بدہن ہمارا انجام برا ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments