افغانستان: کابل میں لڑکیوں کا خفیہ سکول جہاں موت کا خطرہ مول لے کر تعلیم دی جاتی ہے

سکندر کرمانی - بی بی سی نیوز، کابل


Pupils at a secret school
ایک لڑکی نے کہا کہ اگر آپ میں جرت ہے تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے واضح احکامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہر کے ایک رہائشی علاقے میں لڑکیوں کا ایک خفیہ سکول چلایا جا رہا ہے۔

ایک درجن کے قریب نوعمر لڑکیاں ریاضی کی کلاس لیتی ہیں۔

اس سکول کی واحد استانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم دھمکیوں کے بارے میں جانتے ہیں اور ہم ان کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘ لیکن وہ مزید کہتی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم ’کسی بھی خطرے‘ سے بڑھ کر ہے۔

ملک کے مٹھی بھر صوبوں کے علاوہ باقی تمام میں، طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے ثانوی سکولوں کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ہم جس سکول میں گئے وہاں زبردست کام کیا گیا تھا، جس میں صاف ستھری نیلے اور سفید رنگ کی میزوں کی قطاروں کے ساتھ ایک حقیقی کلاس روم کی نقل تیار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ خاتون ٹیچر کہتی ہیں: ’اگر وہ مجھے گرفتار بھی کر لیتے ہیں اور مجھے مارتے ہیں، اس کے لیے یہ قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہوں۔‘

Girls in tears on hearing the news at the Sayed ul Shuhada school in Kabul on 23 March, 2022.

مارچ میں لڑکیوں کے سکول نہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا

مارچ میں، ایسا لگتا تھا جیسے لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھلنے والے ہیں۔ لیکن شاگردوں کی آمد شروع ہونے کے صرف ایک گھنٹہ بعد، طالبان قیادت نے پالیسی میں اچانک تبدیلی کا اعلان کیا۔

خفیہ سکول کے طالبات اور بہت سی دوسری نوعمر لڑکیوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ تھا۔

عارضی کمرہ جماعت میں ایک 19 سالہ نوجوان طالبہ نے ہمیں بتایا کہ ’اب دو مہینے ہو چکے ہیں، اور ابھی تک سکول دوبارہ نہیں کھلے۔ میرے لیے یہ بہت افسوس ناک ہے۔‘ انھوں نے آنسوؤں کو روکنے کے لیے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا۔

لیکن باغیانہ سوچ ہے

ایک اور 15 سالہ طالبہ افغانستان میں دوسری لڑکیوں کو پیغام دینا چاہتی تھی: ’بہادر بنو، اگر تم بہادر ہو تو کوئی تمہیں نہیں روک سکتا۔‘

طالبان کے تحت لڑکیوں کے ثانوی سکول دوبارہ کھل گئے ہیں اور درحقیقت ملک کے دیہی علاقوں میں سکیورٹی میں بہتری کے بعد حاضری میں اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ بڑی عمر کی لڑکیوں کو دوبارہ کلاس میں جانے کی اجازت کب ​​دی جائے گی۔

طالبان نے کہا ہے کہ سب سے پہلے صحیح ’اسلامی ماحول‘ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ سکولوں کو پہلے ہی صنف کے لحاظ سے الگ کر دیا گیا تھا اور کسی کو بھی یقین نہیں آتا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

طالبان حکام نے بارہا عوام سے کہا ہے کہ لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھلیں گے، لیکن یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم ان کے لیے ایک ’حساس‘ مسئلہ ہے۔ 1990 کی دہائی میں اقتدار میں ان کے سابقہ ​​دور کے دوران ’سکیورٹی خدشات‘ کو وجہ بنا کر تمام لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔

متعدد ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ گروپ کے چند سخت گیر لیکن انتہائی بااثر افراد اب بھی اس کے مخالف دکھائی دیتے ہیں۔

نجی طور پر، طالبان کے دیگر ارکان نے لڑکیوں کے سکول نہ کھولنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کے اس اچانک فیصلے پر طالبان کی وزارت تعلیم کو بھی اتنی ہی حیرت ہوئی جتنی کہ کسی اور کو۔ طالبان کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو قطر یا پاکستان میں تعلیم دے رہے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں، طالبان سے روابط رکھنے والے متعدد مذہبی سکالرز نے لڑکیوں کے سیکھنے کے حق کی حمایت کرنے والے فتوے، یا مذہبی احکام جاری کیے ہیں۔

شیخ رحیم اللہ حقانی ایک افغان عالم ہیں، جو زیادہ تر سرحد پار پشاور، پاکستان میں رہتے ہیں۔ طالبان ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں اور گزشتہ ماہ کابل کے دورے کے دوران ان کی کئی سینئر طالبان حکام سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔

Sheikh Rahimullah Haqqani

شیخ رحیم اللہ حکانی نے گزشتہ ماہ کابل میں طالبان کی قیادت سے اس بارے میں بات کی تھی

سکولوں کی مسلسل بندش پر تنقید کرنے میں وہ محتاط ہیں لیکن انھوں نے پشاور میں اپنے مدرسے میں بات کرتے ہوئے اور اپنے موبائل فون کو ہاتھ میں لے کر اپنے اس ’فتویٰ‘ کا متن دکھایا جس میں علماء کے احکام اور پیغمبر کی زندگی سے متعلق بیانات شامل تھے۔

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’شریعت میں یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ خواتین کو تعلیم کی اجازت نہیں ہے اور اس پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

’تمام مذہبی کتابوں میں خواتین کی تعلیم کو جائز اور فرض قرار دیا گیا ہے، کیونکہ مثال کے طور پر، افغانستان یا پاکستان جیسے اسلامی ماحول میں اگر کوئی عورت بیمار ہو جائے اور اسے علاج کی ضرورت ہو، تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کا علاج کسی خاتون ڈاکٹر سے کرایا جائے۔‘

اسی طرح کے فتوے افغانستان کے ہرات اور پکتیا صوبوں میں علما نے جاری کیے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کس قدر وسیع حمایت موجود ہے، حتیٰ کہ قدامت پسند حلقوں میں بھی، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان فرمانوں کا کتنا اثر پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیئے

طالبان لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے

افغانستان: طالبان نے یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ دن مقرر کر دیے

لڑکیوں کے خفیہ سکول: ’مجھے معلوم ہے طالبان لڑکیوں کو سکول میں پڑھنے نہیں دیں گے‘

دس ممالک جہاں لڑکیوں کا سکول جانا مشکل

طالبان نے اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، لیکن طالبان سے روابط رکھنے والے متعدد ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کہ طالبان کے سینیئر وزرا بھی مارچ میں لڑکیوں کے سکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے تیار تھے، تب بھی اس کی مخالفت گروپ کی قیادت کے گرد مرکوز تھی۔

یہ مخالفت جنوبی شہر قندھار سے ہو رہی ہے جہاں ’امیر‘ یا سپریم لیڈر، ملا ہیبت اللہ مقیم ہیں۔

گذشتہ اگست میں اقتدار سنبھالتے وقت ابتدائی طور پر زیادہ لچکدار رویہ اپنانے کے بعد، طالبان نے حال ہی میں زیادہ سے زیادہ سخت گیر احکام جاری کیے ہیں، جن میں خواتین کے لیے چہرے کے نقاب کو لازمی قرار دینا اور انھیں گھر میں رہنے کی ترغیب دینا شامل ہے۔

Women in a market in Kabul

طالبان نے خواتین کے لیے نقاب لازمی قرار دیا ہے

دریں اثنا، اختلاف رائے کے لیے ان کی رواداری، حتیٰ کہ ان کی اپنی صفوں میں بھی، ختم ہوتی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر طالبان کے ایک رکن نے لڑکیوں کے سکولوں کی بندش کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کو داڑھی بڑھانے کا حکم دینے والے نئے قوانین کے بارے میں تنقیدی ٹویٹ کیا تھا۔

تاہم، ایک ذریعے کے مطابق، انھیں طالبان کے انٹیلیجنس ڈپارٹمنٹ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا۔ بعد میں انھوں نے اپنے ٹویٹس کو حذف کر دیا اور داڑھی کے بارے میں اپنے پہلے کے تبصروں پر معذرت کی۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے خلاف نچلی سطح پر بہت کم مخالفت کی گئی ہے، لیکن طالبان کی بعض شخصیات نے لڑکیوں کے سکول کھولے جانے کی صورت میں اس مسئلے کو بھرتی کے لیے استعمال کرنے والے اسلامک سٹیٹ گروپ کے خدشات کا حوالہ دیا ہے۔

تاہم مغربی حکام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے پیش رفت طالبان کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے تاکہ وہ اربوں ڈالر کے غیر ملکی ذخائر میں سے کچھ تک رسائی حاصل کر سکیں جو ابھی منجمد ہیں۔

دریں اثنا، افغان خواتین کے حقوق کے کارکن اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کی ایک نسل پیچھے نہ رہ جائے۔

ہم نے جس خفیہ سکول کا دورہ کیا، وہاں وہ روزانہ ایک یا دو گھنٹے اسباق دیتے ہیں، جن میں ریاضی، حیاتیات، کیمسٹری اور فزکس پر توجہ دی جاتی ہے۔

انچارج ٹیچر کو معلوم ہے کہ اور بھی بہت سی لڑکیاں ہیں جو شرکت کرنا چاہیں گی، لیکن وہ جگہ اور وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ریڈار کے نیچے رہنے کی ضرورت کی وجہ سے مجبور ہیں۔

وہ جلد ہی کسی بھی وقت باقاعدہ سکولوں کے کھلنے کے امکان کے بارے میں پرامید نہیں ہیں لیکن وہ جو کچھ کر سکتی ہیں وہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’ایک تعلیم یافتہ خاتون کے طور پر یہ میرا فرض ہے۔ تعلیم ہمیں اس اندھیرے سے بچا سکتی ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments