روداد سفر حصہ 22


ایوو  شہر میں ہمارے ٹیکسلا شہر کے کافی لوگ رہتے تھے اور سارے ہی جان پہچان والے ۔ اکثر ہم ایک دوسرے کی طرف جاتے رہتے تھے اور اکثر اکٹھے کھانا کھاتے ۔ ان میں فاروقی صاحب بھی تھے جن کے ساتھ میں کسی دور میں تائیوان گیا تھا ۔ وہ بھی تائیوان اور چائنا کے درمیان آتے جاتے رہتے تھے اور چائنا میں ان کی ٹریڈنگ کمپنی تھی ۔ انہوں نے تائیوان سے شادی کی تھی ۔ انہی کے آفس میں ان کے کزن اظہر بھائی بھی کام کرتے تھے ۔ ایک دن میں اظہر بھائی کے پاس فاروقی صاحب کے دفتر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ فاروقی صاحب کی کال اظہر بھائی کو آئی کہ فلاں ریسٹورنٹ میں آ جائیں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں ۔ میں بھی اظہر بھائی کے ساتھ چلا گیا ۔ پیدل ہی زیادہ دور نہیں تھا ۔ ریسٹورینٹ پہنچے تو فاروقی صاحب کے ساتھ ایک فرانسسی صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان سے بھی ملے اور بات چیت شروع ہوئی ۔ میں نے بھی ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ تبت رہے اور تبت کے بدھ ازم سے کافی متاثر ہیں اور اس مذہب کو قبول کرنا چاہتے ہیں ۔ میں ان کے متاثر ہونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ اس سے انہیں اندرونی خوشی اور روحانی سکون محسوس ہوتا ہے ۔ میں نے سوال پوچھا کہ بدھ ازم اس زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء کو کیسے بیان کرتا ہے تو اس بات کا جواب ان کے پاس نہیں تھا ۔ یا شاید وہ اس سوال سے جو بنیادی سوال ہے کہ میں انسان آیا کہاں سے اور جانا کہاں ہے , آخر اس سفر اور ان مشکلات کا انجام کیا ہے ، وہ اس پر سوچنا ہی نہیں چاہتے تھے  اور بدھ ازم کے فلسفے کے پاس اس سوال کا جواب بھی موجود نہیں وہ صرف اور صرف موجود پر بات کرتا ہے کہ قناعت کرو ۔ بدھا اسی سوال کے جواب کی تلاش میں تھا اور اس جواب کےلیے وہ وہی طریقہ اختیار کر رہا ہے ۔ یہی وہ بنیادی سوالات ہے جن کے جواب تلاش کرنے کےلیے انسان سر ٹکرا رہا ہے ۔ بہرحال ان کی سکون والی بات کو سامنے رکھ کر  میں نے کہا کیا یہ سکون اور اطمینان آپ کے واپس فرانس جانے کے بعد بھی قائم رہے گا ۔ انہوں نے جواب دیا امید ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا خاندان مسیحی ہے لیکن وہ مسیحیت پر اب یقین نہیں رکھتے کیونکہ تثلیث کا فلسفہ انہیں کبھی سمجھ نہیں آیا ۔ اس لیے وہ بہت عرصے سے اتھیسٹ  ہیں ۔ لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہیں تھے کہ انہیں اپنے اندر ایک خلاء محسوس ہوتا تھا اور قلبی اطمینان نہیں تھا ۔
یہ بھی خدا کی ان پر ایک عنایت تھی کہ وہ اس خالق کی تلاش میں اتنے دور کا سفر کرکے آئے تھے کہ شاید اس خالق کا تصور وہ یہاں کہیں سے ڈھونڈ لیں جو ان کے دل کو اطمینان سے بھر دے اور اس خلاء کو بھر دے جو اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے پیدا ہوا تھا ۔ کچھ ملا یا نہیں ملا لیکن وہ قیامت والے دن یہ بات تو اپنے رب کے سامنے پیش کر سکتے ہیں کہ میں نے اپنی سی کوشش کی تو ہے اور تیری تلاش میں اتنی دور بھی گیا تو ہوں ۔ وہ مالک ہے خالق ہے وہ جانے اس کا انصاف جانے ۔
ہم نے بھی انہیں اسلام کو پڑھنے کا کہا کہ شاید آپ کی تلاش یہاں مکمل ہو جائے ۔ اس وقت تک ہم میں سے بھی کسی کو بدھ ازم کے متعلق زیادہ معلومات نہیں تھیں ۔ اور یہ کمی شدت سے محسوس ہوئی کہ داعی کو اپنے اردگرد موجود مذاہب اور فلسفوں کا بہت اچھا علم ہونا چاہیے ۔
پھر یک دم میرے ذہن میں بھی خیال آیا اور میں نے ان سے پوچھ لیا کہ بدھ ازم کا فلسفہ کیا ہے تو انہوں نے صرف یہی بتایا کہ روحانیت کا سفر اور دلی اطمینان اور سکون ۔ میں نے کہا لیکن اس کے اپنے ماننے والے تو صرف اسی سکون کےلیے جیتے ہیں اور سفر میں رہتے ہیں اور اگر سارے اسی فلسفے کو ماننے لگیں تو زندگی کی گاڑی کیسے چلے ۔ اگر ہر کوئی بجائے خود معیشت کا حصہ اور اس میں اضافہ کرنے کی بجائے دوسروں ہی سے مدد کا طالب رہے تو زندگی کا نظام کیسے چلے گا ۔ ہر ہاتھ لینے والا ہو تو دینے والے ہاتھ کہاں سے آئیں گے ۔
شاید اسی طرح کی ایک کہانی میں نے ایک پاکستانی فیکٹری مالک کی بھی پڑھی تھی کہ ان کی فیکٹری میں ایک زخمی کتا تھا جیسے دوسرا کتا کھانے کےلیے لا کر دیتا تھا ۔ اس منظر کو دیکھ کر انہوں نے بھی کاروبار چھوڑ دیا کہ جو خدا اس کتا کو دوسرے کتے سے رزق دے رہا ہے مجھے بھی دے گا ۔ اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ بیٹھ گئے ۔ لوگ ان کے پاس آتے اور ان کی کہانی سن کا واہ واہ کرتے ۔ پھر ایک دن ایک نوجوان نے ان کی کہانی سن کر قہقہہ لگایا اور کہا کہ شیخ صاحب آپ نے اس کتے کو دیکھ کر کام چھوڑا جو زخمی تھا وہ کتا آپ کو یاد نہیں رہا جو اسے ڈھونڈ کر کھانا لا کر دے رہا تھا ۔ آپ کی فیکٹری میں کئی لوگوں کے رزق کا وسیلہ تھی جسے آپ نے بند کر دیا ۔
یہی کچھ حال بدھ بھکشوؤں کا بھی ہے ۔ اور یہی کچھ حال ہمارے صوفیوں کا بھی ہے ۔
 کچھ عرصہ بعد میر فاروق صاحب تائیوان سے واپس چکر لگا کر  آئے تو ہماری دعوت کی یعنی مل بیٹھنے کا ایک بہانہ تھا ۔ ہم سارے دوست ایک ریسٹورنٹ کے سامنے فٹ پاتھ جہاں ریسٹورنٹ والوں نے کرسیاں میز لگائے ہوئے تھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ میر فاروق صاحب کے آفس میں کام کرنے والی چائنیز لڑکی کو بھی میر فاروق صاحب نے کال کی کہ آفس کے بعد ہمارے ساتھ ہی آ کر کھانا کھانا ۔ وہ بھی آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوست نے مذہب کے متعلق اس سے پوچھا کہ وہ کس مذہب کو ماننے والی ہے تو اس نے جواب دیا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی ۔ میں نے سوال پوچھا کہ اس دنیا کی ابتداء کیسے ہوئی اور انتہاء کیا ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم لیکن میری دادی نے پچپن میں مجھے بتایا کہ بہت بڑا شیر تھا اس نے منہ کھولا اور سب کچھ اسی کے منہ سے برآمد ہوا ۔ میں نے کہا تمہارا کہنا ہے کہ وہ شیر پھر خالق ہے ۔ اس بات پر وہ خاموش ہو گئی اور موضوع بدل دیا ۔  یعنی وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی لیکن اس کے پاس اس ابتداء اور انتہاء کا کوئی جواب موجود نہیں جو اصل سوال ہے ۔ چائنا کے تعلیمی اداروں میں بھی شاید بات بگ بینگ  ہی سے شروع کی جاتی ہے اور انتہاء مٹی ہو جانا ہی کہا جاتا ہے کیونکہ بگ بینگ سے پہلے اور مرنے کے بعد کا موضوع شاید سائنس بھی چھیڑنے کےلیے تیار نہیں ۔ لیکن شاید اس وقت میرے پاس بھی بس تقدس پر قائم ایک عقیدہ ہی تھا ۔
اس دن مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا اور مجھے جاننا ہے اپنے مذہب کے بارے میں اور اردگرد کے فلسفوں کے متعلق ۔ اگر میں اس مذہب کا ماننے والا ہوں تو اس کا تعارف ایک عام نہ جاننے والے شخص کو کیسے پیش کروں گا ۔ اور جو کچھ اس شخص کے پاس پہلے سے موجود ہے اس میں کیا کمی ہے اور میں جو اسے پیش کر رہا ہوں وہ کیسے بہتر اور قابل عمل ہے ۔ میرے خیال میں یہ جائزہ اگر ہم میں سے ہر شخص لے تو شاید خود کو اس لحاظ سے خالی ہی محسوس کرے گا ۔ یہی وہ دلائل ہیں جن کا تذکرہ میں بار بار کر رہا ہوں اور یہ دلائل اور جائزہ غیر جانبدار ہو کر لینا پڑتا ہے جو بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے ۔ لیکن میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں تو ہر وقت گھر میں اس امتحان سے گزرتا تھا ۔ گھر کے علاؤہ جہاں بھی میں نماز کےلیے سفر میں کھڑا ہوتا یا کسی کھانے پینے کی چیز سے جو حرام ہے اجتناب کرتا تو اعتراض کرنے والے مجھے سے مختلف عقائد کے لوگ ہوتے تھے انہیں میں نے وضاحت دینی ہوتی تھی ۔ یہ دعوت پیش کرنے کا بہترین موقعہ بھی ہوتا ہے اگر کوئی سمجھے اور پیش کر سکے لیکن عقیدت سے نہیں دلائل سے ۔ اور میری مجبوری تھی کہ میں نے یہ دلائل تلاش کرنے تھے کہ یہ میرے گھر کا مسئلہ تھا ۔ اور یہ خدا کی طرف سے میرے لیے بار بار ایسے امتحان سامنے لا کر وارننگ دی جا رہی تھی کہ تیاری کرو ۔ یہی وارننگ ہم میں سے ہر ایک کو اج دی جا رہی ہے کہ امتحان آج ان کے گھروں میں نئی نسل کے سوالات کی صورت میں موجود ہے ۔ ان دلائل کی بنیاد صرف اور صرف انسانی فطرت اور عقلی چاہیں تھی ۔ یہاں کسی عقیدت کا کوئی کام نہیں تھا کہ میں یہ دلیل دوں کہ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ۔ یہ دونوں ماخذ میرے لیے یا اس مذہب کو ماننے والے کےلیے تو قابل قبول تھے تھے , مقابل جو مسیحی ، بدھ یا کنفیوشس تھا اس کےلیے ان کی کوئی ویلیو نہیں تھی ۔

پھر ایک دن میر فاروق صاحب بمعہ فیملی اور ان کے ساتھ ان کے کزن میر ارسلان اور ان کی تائیوانی فیملی بھی ایوو  آئے ۔ ان کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے ۔ ان کے بڑے بچے چودہ پندرہ سال کے تھے ۔ میں نے میر ارسلان صاحب جو میرے ساتھ ہی تائیوان بھی رہے تھے ان کی بیوی سے ان کے بچوں کی مذہبی تعلیمات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ میرے شوہر کا مذہب ہے اور بچے خود سلیکٹ کر لیں گے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ، یہی جواب میر ارسلان صاحب کا بھی تھا ۔ اس جواب نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کل میری بچی نے بھی بڑا ہونا ہے اور اس حوالے سے میں اسے کیا دلائل دوں گا ۔  انہیں دیکھ کر مستقبل کا کچھ حوالہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا کہ یہ سٹیج مجھ پر بھی آنے والی ہے ۔

FB_IMG_1652962367300.jpgFB_IMG_1652962367300.jpg~28 KBShow Download

FB_IMG_1652962364565.jpgFB_IMG_1652962364565.jpg~54 KBShow Download

FB_IMG_1652962361717.jpgFB_IMG_1652962361717.jpg~53 KBShow Download


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments