موسمیاتی تبدیلی کاعالمی چیلنج


اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چار اہم اشاریئے 2021 میں اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ عالمی توانائی کا نظام انسانیت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ اشارہ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم نے اپنی ”سٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ اِن 2021 ” رپورٹ میں کیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی تعداد، سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت نے پچھلے سال نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس نے کہا ہے کہ یہ سالانہ جائزہ رپورٹ آب و ہوا کے خلل سے نمٹنے میں انسانیت کی ناکامی کا ایک مایوس کن منظرہے۔اس رپورٹ کے مندرجات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی توانائی کا نظام ٹوٹ چکا ہے جو انسانیت کو موسمیاتی تباہی کے قریب ترکررہاہے لہٰذا اس سے پہلے کہ موسمیاتی تبدیلی کا یہ سنگین بحران دنیاکوتباہی کے کنارے کھڑا کردے ہمیں حیاتیاتی ایندھن کی آلودگی کو ختم کرنے نیزاپنی توانائی کی ضروریات کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو تیزترکرنا ہوگا۔
زیر نظر رپورٹ میں واضح طور پر اس جانب اشارہ کیاگیا ہے کہ انسان کی غیرفطری سرگرمیاں زمین، سمندر اور فضا ء میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں جس سے ماحولیاتی نظام پر نقصان دہ اور دیرپا منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021اب تک ریکارڈ کیے گئے گرم ترین سالوں میں سے ایک تھاجس میں اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.11 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے میں شریک ممالک نے اس بات پراتفاق کیاتھا کہ   گلوبل وارمنگ کو 1850 ء اور 1900 ء کے درمیان ماپا جانے والی اوسط سطح سے 2C ور اگر ممکن ہو تو 1.5C تک محدود کیاجائے گا۔اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیئے بناء کوئی چارہ نہیں ہے کہ انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں سے پیدا ہونے والی گرمی آنے والی نسلوں کے لیے کرہ ارض کو گرم کرنے کاباعث بنیں گی۔ماہرین کی جانب سے باربار یہ انتباہ دیا جارہا ہے کہ سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور تیزابیت کا عمل آنے والے سالوں میں اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ماحول سے کاربن کو ہٹانے کے ذرائع ایجاد نہ کیے جائیں۔یاد رہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا ارتکاز 2020 میں عالمی سطح کی ایک نئی بلندی پر پہنچ گیاتھا جب کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کا ارتکاز عالمی سطح پر 413.2 فی ملین (ppm) تک پہنچ گیاتھایہ بلندی صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح کا 149 فیصد تھا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وہ 2021 اور 2022 کے اوائل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں ماضی کے برعکس کئی گنااضافہ ہوا ہے۔ان اعداد وشمار کے مطابق عالمی اوسط سمندر کی سطح 2021 میں ایک نئی ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھی جو 2013 سے 2021 کے دوران اوسطاً 4.5 ملی میٹر سالانہ بڑھ رہی تھی۔حالانکہ 1993 اور 2002 کے درمیان اس شرح میں ہر سال 2.1 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیاگیا تھا جس سے پیش آمدہ متوقع خطرات کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمندر کی گرمی گزشتہ سال ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جو 2020 کی قدر سے زیادہ تھی۔موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے حوالے سے یہ خدشات بھی ظاہر کیئے جارہے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو سمندر کا 2,000 میٹر کااوپری حصہ یا سطح سمندرمستقبل میں مذید گرم ہوتا رہے گا یہ ایک ایسی تبدیلی ہوگی جو صد سالہ سے ہزار سالہ اوقات میں بھی ناقابل واپسی ہوگی۔ سمندر انسانیت کی لاپرواہی بلکہ خود غرضی کی وجہ سے CO2 کے سالانہ اخراج کا تقریباً 23 فیصد فضا میں جذب کرتا ہے۔ جب کہ یہ ماحول میں CO2 کی تعداد میں اضافے کو سست کرتاہے اورCO2 سمندری پانی کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سمندری تیزابیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل نے بہت زیادہ اعتمادکے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ کھلے سمندر کے سطح کی تیزابیت کم از کم گزشتہ 26,000 سالوں سے سب سے زیادہ ہے۔
 زیر بحث رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹارکٹک اوزون ہول 2021 میں غیر معمولی طور پر گہرا اور بڑاسوراخ نوٹ کیاگیا ہے جس کا زیادہ سے زیادہ رقبہ 24.8 ملین مربع کلومیٹر تک پہنچ گیاہے جو ایک مضبوط اور مستحکم قطبی بھنور سے چلایا جاتا ہے۔انسانیت کو درپیش اس عظیم چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس کا یہ کہنا بجااور بروقت ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمیں بہت دیر ہو جائے ہمیں قابل تجدید توانائی کی جانب تیزی سے منتقلی کے لیے پانچ اقدامات فی الفور اٹھانے ہوں گے جن میں حیاتیاتی ایندھن کی سبسڈی ختم کرنے، قابل تجدید توانائی میں تین گنا سرمایہ کاری اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز بناناقابل ذکر ہیں۔انتونیو گوٹیریس کی اس بات میں نہ تو کوئی شک ہے اور نہ ہی کوئی اس سے اختلاف کرسکتا ہے کہ اگر پوری دنیا زمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے مل کر نمٹنے کاعزم کرلے توقابل تجدید توانائی کی تبدیلی کے ذریعے 21ویں صدی کو امن کی صدی کے عالمی منصوبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments