ضمیر فروشی کی منڈی پر قدغن!


مسلم لیگ ( ن ) قیادت کو اقتدار میں آنے کی بہت جلدی تھی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے بری طرح پھنس گئے ہیں، جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ سپریم کورٹ کے لوٹا کریسی کے خاتمے سے متعلق سنائے جانے والے تازہ فیصلہ نے پوری کر دی ہے، عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے دو کے مقابلے میں تین ارکان نے اکثریت سے رائے دی ہے کہ اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والے رکن پارلیمان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا، عدالت عظمیٰ نے منحرف ارکان کی نا اہلی کا معاملہ واپس بھجواتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی پارلیمان کرے، اس مختصر آرڈر کے سیاسی نظام پر دو رس مثبت اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں، اس سے ایک طرف جہاں سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی، وہیں دوسری جانب منحرف ارکان کے حوالے سے پارلیمان میں قانون سازی کرنے سے وفاداریاں تبدیل کرنے کے تمام دروازے بھی بند ہوجائیں گے۔

یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار میں پیسے کے زور پر ارکان پارلیمان کی وفاداریاں تبدیل کی جاتی رہی ہیں، تاہم اس بار تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حسب روایت وفاداریاں بدلنے پرایک صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ میں بھیجا گیا، اس میں حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت کے ارکان کو خریدا گیا اور ان کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی ہیں، اس وقت کی حکمراں جماعت اپنی صفوں میں بغاوت کو روک نہیں سکی تھی، اس لیے عدالت عظمیٰ سے مدد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی، لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں دیر ہو گئی اور حکومت تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو نے پر چلی گئی، عدالت عظمی کا فیصلہ دیر سے ہی سہی، مگر ایسا آیا ہے کہ آئندہ کے لئے وفاداریاں بدلنے والوں کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔

ملک کے سیاسی و عوامی حلقوں میں عدالت عظمی کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے، لیکن اس ریفرنس کے بارے قانونی ماہرین کے حلقوں میں اختلاف ہے کہ عدالت عظمیٰ کا جواب حکم یا رائے ہے، تاہم دیکھنا ہے کہ اس آرڈر کے وفاقی اور صوبائی حکومت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، پنجاب کی حکمراں مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اب بھی انہیں پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ( ن) دونوں نے ہی عدالت اعظمی سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب کرنا پڑے، لیکن اس وقت ایک بار پھر سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا نقصان بھی سیاسی جماعتوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

یہ امر انتہائی افسوس ناک رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے حق میں آنے والے فیصلوں کو ہی خوش دلی سے قبول کرتی ہیں، مگر اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتی ہیں، صدارتی ریفرنس کے آرڈر پر بھی ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کے کچھ سیاسی جماعتوں کے لئے اثرات وقتی طور پر موافق نہ ہوں، مگر اجتماعی زندگی میں اجتماعی مفاد کی اہمیت ہوتی ہے اور ہماری جمہوریت کا اجتماعی مفاد انہی اصولوں میں ہے جو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں طے کر دیے ہیں، یہ آئینی تشریح سیاسی جماعتوں کو نہ صرف اصولوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد کرے گی، بلکہ جمہوریت کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے گی، یہ عدالتی آرڈر سیاسی جماعتوں کے لئے موقع پیدا کر رہا ہے کہ خود پر لگے دھبے دھونے کے لئے کھلے دل سے ان تشریحات کو قبول کریں، اس سے سیاسی انتشار کا خاتمہ ہی نہیں، سیاسی استحکام بھی آئے گا۔

یہ ملک کی سیاسی قیادت پر انحصار ہے کہ سیاسی بحران سے نکلنا چاہتے ہیں کہ سیاسی انتشار برپا کر کے اپنی جمہوریت کو ہی داؤ پر لگانا چاہتے ہیں، ملک میں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے ہی جمہوریت کی مضبوطی ہے، لیکن اسے کمزور خود ہی جمہوریت کے دعویدار کر رہے ہیں، سیاسی قیادت عرصہ دراز سے وفاداریاں بدلنے والوں کے حوالے سے واویلا کرتی رہی ہیں، عدالت عظمیٰ نے اپنے آرڈر کے ذریعے نہ صرف ضمیر فروشوں کی منڈی پر قدغن لگا دی ہے، بلکہ الیکشن کمیشن کے ساتھ پارلیمان کو بھی درست راہ دکھا دی ہے، یہ اب سیاسی جماعتوں کی قیادت پر منحصر ہے کہ عشروں سے جاری ضمیر فروشی کی منڈی پر قدغن لگنے کے بعد عملی طور پر خود کیا کرتے ہیں؟

وہ ضمیر فروش منحرف ارکان کو تا حیات نا اہل کرواتے ہیں کہ اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر قانونی سقم ڈھونڈتے ہوئے نا اہلی سے بچاتے ہیں، اگر چہ عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے بعد ضمیر فروشوں کی نا اہلی یقینی ہے، لیکن اس ملک کی سیاسی قیادت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، یہ حصول اقتدار کے لئے کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں، یہ نا اہلی کو اہلیت میں بھی بدل سکتے ہیں، یہ ضمیر فروشی کی منڈی پر لگے قفل دوبارہ کھلوا بھی سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments