غیر متوازن


دروازے کو منہ پر مارے اپنا فیصلہ سنا کر پیروں کو پٹختا اپنی موٹر سائیکل پر سوار گھر سے باہر نکلنے والا خود سر مرد، اور گھر کے کسی کونے پر منہ میں دوپٹہ دبائے اپنی چاہت اور سسکیوں کو چھپاتے ہوئے رب کے حضور سر خم کیے دنیا کے ہاتھوں ذلیل و مجبور عورت! دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ دین نے یہ ترازو غیر متوازن نہیں رکھا یہ کمال تو معاشرے کا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کے عورت کو بھی خود سری کا حق ہو، ہرگز نہیں، سوال تو یہ ہے کہ اپنی مرضی و پسند کا اظہار اگر مرد کرے تو وہ فیصلہ!

اور اگر عورت کرے تو وہ بے غیرت! بے حیاء! موجودہ معاشرہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے ایک دیہی علاقہ تو دوسرا شہری علاقہ مگر دونوں طرف ہی ترازو غیر متوازن ہے دیہی علاقوں میں تو عورت کا اپنے لیے فیصلہ ناممکن ہے کیوں کے وہ تو کسی گائے بکری کی طرح ایک کھوٹے سے دوسرے کھوٹے سے باندھ دی جاتی ہے نہ پڑھنے لکھنے کی آزادی ہوتی ہے نہ ہی کسی اظہار خیال کا اختیار۔ جبکہ موجودہ دور میں شہری علاقوں کی عورتیں شاید ان سے کافی بہتر حالت میں ہیں وہ پڑھتی لکھتی بھی ہیں اور اظہار خیال بھی کرتی ہیں، اور اس معاشرے میں اپنا حق مانگ کر نہ ملے تو آواز اٹھانا بھی جانتی ہیں۔

مگر اس معاشرے میں مرد کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم ملا کر چلنے والی عورت کو بھی کہیں نہ کہیں اپنے فیصلے لینے پر بے غیرتی اور بے حیائی کا داغ لگا ہی دیا جاتا ہے۔ اس ماڈرن معاشرے میں عورت باغی کیوں ہے؟ اس نے چادر کیوں پھینکی؟ کیوں اس کی آواز بلند ہوئی اور کیوں وہ اس حالت میں آ گئی؟ کیوں کے اس نے اپنے حدود میں رہ کر معاشرے میں آگے بڑھ کے دیکھا وہ تب بھی بے غیرت کہلائی اور جب حدود سے باہر نکلی تب بھی۔

ورکنگ وومن آج بھی ٹھکرائی جاتی ہے صرف اس لیے کیوں کے وہ کام کرتی ہے۔ تو کہیں جاب انٹر ویو میں عورت اس لیے ریجیکٹ کر دی جاتی ہے کیوں کے وہ حجاب کرتی ہے۔ شاپنگ سینٹرز، سپر مارٹس یہاں تک کے ایک صابن کے ایڈورٹائزمنٹ میں بھی عورت کو مرد کے لباس میں کھڑا کیے ملک کی معیشت کا پہیہ تیر کر کنے کے بعد اس پر بد کرداری کا داغ لگاتے ہیں۔ یقین کریں ہم جینے نہیں دے رہے اس طبقے کو کسی بھی حال میں چاہے وہ گھر میں بیٹھی خدمت گزار ہو یا باہر نکل کر آپ کے کندھوں کا بوجھ اٹھانے میں آپ کا ہاتھ بٹا رہی ہو دونوں صورتوں میں ہی اسے اور اس کی محنت کو چھوٹا کیا جا رہا ہے۔ عورت کے حقوق کے لئے بہت سی کتابیں، رسالے اور آرٹیکلز موجود ہیں مگر عورت کو سب سے زیادہ حق، تحفظ اور عزت قرآن میں دی گئی ہے افسوس صرف اتنا ہے کے ظلم کرنے والوں نے اپنی مرضی کے الفاظ اپنی مرضی کی وضاحت کے ساتھ اٹھا رکھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments