کتاب پر ایک نظر :”Sapiens“


اسرائیلی تاریخ دان یوال نوح حراری کا بین الاقوامی سطح پر کافی چرچا ہے۔ ان کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب 2014 ء میں ان کی لکھی گئی ایک کتاب کا ”Sapiens, A Brief History of Humankind“ کے عنوان کے ساتھ عبرانی زبان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ یہ کتاب راتوں رات مشہور ہوئی اور رفتہ رفتہ ساٹھ زبانوں نے اس کو اپنی آغوش میں جگہ دی۔ بعد میں ان کی دو کتب اور بھی آ گئیں۔ حال ہی میں ان کی ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے، جس میں انسانی تاریخ تصویری شکل میں پیش کی گئی ہے۔

جب سے نوع انسان نے ہوش سنبھالا ہے اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے گرد و پیش پر غور کرنا شروع کیا ہے تو کئی سوالات نے اس کو بہت تنگ کیے رکھا ہے۔ میں کون ہوں؟ کیوں ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ باقی ذی روح سے اتنا مختلف اور طاقتور کیوں ہوں؟ مجھ سے پہلے کی دنیا کیسی تھی؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ دنیا اور موجودہ معاشرتی و سیاسی دنیا کیسے وجود میں آئی؟ کیا تاریخ کسی خاص سمت میں سفر کرتی ہے؟ دنیا کا مستقبل کیا ہے؟ یورپ نے کس طاقت کے بل بوتے پر دنیا کی ایک بڑی آبادی کو غلام بنایا؟ خوشی کیا ہے اور کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا انسان لا فانی بن سکتا ہے؟ یہ اور اس نوعیت کے بہت سارے اور سوالات آج بھی ہمارے ذہنوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ حراری نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف

”Sapiens, A Brief History of Humankind“
میں ان ہی سوالات کے جوابات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مصنف نے پتھر کے زمانے (جسے مصنف لکڑی کا زمانہ کہتے ہیں ) سے لے کر اکیس ویں صدی تک کی انسانی تاریخ کو جامع انداز میں قلم بند کرتے ہوئے کتاب کو چار مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصے کے ذیلی حصے بنائے گئے ہیں۔

پہلے حصے میں شعوری انقلاب کا ذکر موجود ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انسان نے سوچنا اور سمجھنا شروع کیا۔ یہ ستر ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ دوسرے حصے میں زرعی انقلاب کا ذکر موجود ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ موڑ تھا جب انسانوں نے شکار کرنے اور پودے اکٹھا کرنے کی بجائے اپنے پسند کے پودے مثلاً گندم، چاول، آلو، پیاز وغیرہ کاشت کرنا شروع کیا۔ یہ تبدیلی دس ہزار سال پہلے عمل میں آئی۔ تیسرے حصے میں انسانوں کی اکٹھ پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ایک دوسرے سے بے خبر چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہنے والے انسان متحد ہوئے اور ان کی سیاسی سرگرمیاں درجہ بدرجہ ایک عالمگیر سلطنت کے قیام کی طرف گامزن ہوئیں۔ آخری حصے میں سائنسی انقلاب کا تذکرہ ہے جو واضح طور پر 1543ء کو سامنے آیا اور پوری دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

حراری کے نزدیک انسانوں کا ایک فرضی/ تصوراتی حقیقت تراش سکنا اور بڑی تعداد میں اس پر یقین کر سکنا ہی وہ صلاحیت ہے جو اسے باقی جانداروں سے میمز کر کے زمین کی طاقتور ترین نوع بنا لیتی ہے۔ یہ صلاحیت ہاتھ لگنے کے بعد انسانوں نے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں رہنے کی بجائے بڑی تعداد میں متفقہ اصولوں کے تحت ایک ساتھ رہنا اور باہمی تعاون کرنا شروع کیا۔ اس طرح جسمانی طور پر ایک کمزور نوع نے بے پناہ طاقت حاصل کر لی۔

خیالی چیزوں کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا مصنف کے نزدیک انسانوں کی سب سے زیادہ بے مثل قابلیت ہے۔ ان کے مطابق مذہب، ثقافت، کرنسی، ریاست یا نیشنلزم، لبرل ازم، سیکولر ازم، مارکسزم وغیرہ جیسے جدید سیاسی و معاشرتی مکاتب فکر، جنہیں موصوف ”مذاہب“ کہتے ہیں، انسان کی اسی صلاحیت کی پیداوار ہیں۔

انسانی جنس کی باقی انواع جیسے نیئنڈرتال، ہومو سولنسز، ہومو اریکٹس، ہومو فلوروزئینسز وغیرہ یا باقی جانداروں میں چونکہ یہ صلاحیت نہیں تھی اور بہت محدود گروہوں میں منتشر زندگی بسر کرتے تھے، اس لیے وہ انفرادی طور پر طاقتور ہوتے ہوئے بھی متحدہ انسانوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور رفتہ رفتہ یا تو معدوم ہو گئے اور یا انسانوں کے غلام بن گئے۔

حراری کے نزدیک زرعی انقلاب تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ تھا۔ وہ اس نظریے کو ایک مغالطہ سمجھتا ہے جس کے مطابق انسان وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ذہین ہوتے گئے اور ایک سہل زندگی کی تلاش میں چارہ جمع کرنے والے کم علم آباء و اجداد کے بر عکس کھیتی باڑی شروع کر لی۔ مصنف کے خیال میں زرعی انقلاب کے بعد زندگی آسان اور پرسکون نہیں ہوئی بلکہ مزید مشکل ہو گئی۔ زراعت شروع ہونے سے پہلے انسان زیادہ دلچسپ زندگی گزارتا تھا۔ بیماریوں اور قحط کا خطرہ کم تھا۔ قسم قسم کی خوراک تک رسائی تھی اور انسان نسبتاً زیادہ صحت مند تھا۔ کاشت کاری شروع ہونے کے بعد مجموعی خوراک میں اضافہ تو ہو گیا لیکن اس کی وجہ سے فراغت یا بہتر خوراک میسر نہ ہو سکی۔ الٹا آبادی میں غیر ضروری اضافہ ہوا اور عیاش مقتدر طبقے وجود میں آ گئے۔

زرعی انقلاب کا نچوڑ زیادہ انسانوں کو مزید ابتر حالات میں زندہ رکھنا ہے۔ ارتقائی لحاظ سے تو ہم نے کامیابی حاصل کر لی، کیونکہ اس کا پیمانہ تعداد ہوتا ہے لیکن انفرادی طور پر ہم زوال کا شکار ہوئے کیونکہ اس کی پیمائش سکون اور خوشی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک انسان نے پودوں کو پالتو نہیں بنایا بلکہ پودوں نے انسان کو پالتو بنایا۔

حراری کے مطابق جدید سائنس علم کی سابقہ روایات اور ذرائع کے مقابلے میں تین بنیادی زاویوں کے لحاظ سے مختلف ہے : اپنی جہالت کو تسلیم کرنا، ریاضی کے اصولوں کے تحت مشاہدات کو پرکھنا اور ہر دم عملی طور پر نئی ایجادات اور طاقتوں کے حصول میں مگن رہنا۔

سائنسی انقلاب علم کا انقلاب ہونے کی بجائے جہالت کا انقلاب تھا کیونکہ انسانوں کو اپنے کچھ انتہائی اہم اور بنیادی سوالات کے جوابات کے سلسلے میں اپنی لا علمی کا احساس ہی سائنسی انقلاب کی بنیاد بنا تھا۔ سائنس سے پہلے علم کے بنیادی ذرائع مذاہب تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ہر اہم سوال کا جواب موجود ہے۔ اگر کوئی فرد کسی حوالے سے علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو کسی دانا کے پاس چلا جائے اور اگر مجموعی طور پر پوری آبادی کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے تو وہ سوال غیر اہم ہے۔

حراری مزید لکھتے ہیں کہ جدید سائنس، صنعت اور فوجی ٹیکنالوجی آپس میں اس وقت جڑ گئے جب سرمایہ دارانہ نظام اور صنعتی انقلاب کا ظہور ہوا اور یہ کہ سائنس کو ترقی دینے میں سامراجیت کا بڑا کردار رہا ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ سائنس کسی مخصوص اخلاقی یا روحانی ضابطے کی بنیاد پر نہیں چلتی بلکہ ثقافت کے باقی اجزاء کی طرح اس کی تشکیل بھی معاشی، سیاسی اور مذہبی اغراض کے لیے کی جاتی ہے۔ اکثر سائنسدانوں کو بھی اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ سائنسی تحقیق کے لیے آنے والے پیسے کا ماخذ اور مقصد کیا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ ان کرداروں کی وجہ سے سائنس نے کیوں اور کس طرح بہت ساری ممکنات کے ہوتے ہوئے ایک مخصوص سمت اختیار کی۔

صنعتی انقلاب کے بعد آج ہمارے پاس مادی وسائل تو بہت ہیں اور ہم اپنی پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی زندگیاں جینے کے قابل ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباؤ، گھبراہٹ اور بیگانگی میں بھی بے نظیر اضافہ ہوا ہے۔ مصنف بھی اس کی وہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو اکثر ارتقائی نفسیات کے ماہرین پیش کرتے ہیں۔ ان نفسیات دانوں کے مطابق ہماری موجودہ معاشرتی اور نفسیاتی خصوصیات کی تشکیل زرعی انقلاب سے پہلے کے طویل دور میں ہوئی تھی۔

بعد میں ماحولیاتی طور پر تو بہت ساری تبدیلیاں آئیں لیکن چونکہ ہماری نفسیات ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اس لیے قدیم نفسیات اور جدید ماحول کے باہم تصادم نے اس قسم کی پریشانیوں کو جنم دیا۔ اگر ہم صحیح معنوں میں ان پریشانیوں کی جڑ کو سمجھنا چاہے تو ہمیں واپس اس چنائی (hunter۔ gatherer) معاشرے کا رخ کرنا ہو گا جس نے ہماری نفسیات وضع کی اور جو ابھی تک ہمارے لاشعور میں آباد ہے۔

کتاب بہت دلچسپ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر موصوف کی کتاب ”21 Lessons for the 21st Century“ کی طرح یہ والی بھی بہت اچھی لگی، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر۔

ہر مصنف اور ہر کتاب کی طرح، اس کتاب میں بھی کئی خوبیاں اور کئی خامیاں ہیں۔ اگر آپ سائنسی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو جابجا آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ حراری اپنے کچھ ذاتی تصورات کو بھی بغیر کسی قابل قبول ثبوت کے خالص سائنسی نتائج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ایک تحقیقی، سائنسی اور تاریخی کتاب لکھتے وقت بہت سارے حوالہ جات پیش کرنا ہوتے ہیں لیکن کتاب میں بہت ہی محدود حوالے دیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ غیر ضروری مبالغے، سنسنی خیزیت اور لا پرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

بحر حال اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انتہائی دلچسپ موضوع پر خاصی تفصیلی اور عام فہم انداز میں ایک اچھی اور متاثر کن کتاب لکھی ہے۔ پتھر کے زمانے سے لے کر اکیس ویں صدی تک کی تاریخ کو اس طرح جامع انداز میں پیش کرنا بہت قابل ستائش کارنامہ ہے۔

کتاب پڑھتے وقت قاری کبھی خود کو پتھر کے زمانے میں افریقہ کے کسی جنگلی جانور کا پیچھا کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے تو کبھی یورپ میں دیوہیکل نینڈرتال کے ایک چھوٹے اور منتشر گروہ سے لڑائی کرتے ہوئے، کبھی وسط ایشیاء کے میدانوں میں لکڑی کا ہل چلاتے ہوئے تو کبھی چند جانوروں کے شکار کے لیے پورے جنگل کو آگ لگاتے ہوئے، کبھی آسٹریلیا کے مقامی سادہ دل اور مظلوم لوگوں کے بیچ تو کبھی امریکہ میں سونے اور کوئلے کی کانوں میں جانوروں کی طرح مزدوری کرنے والے افریقہ سے درآمد شدہ غلاموں کے درمیاں، کبھی مصر، ایران، سپین، چائنہ، برطانیہ اور ترکی کی بڑی بڑی سلطنتوں کے رہائشی کے طور پر تو کبھی انڈونیشیا کے کسی چھوٹے اور الگ تھلگ جزیرے کے باشندہ کے طور پر، صنعتی انقلاب کے مارے ہوئے ناخوش مزدور کے طور پر اور یا حیرت بھری نظروں سے سائنسی ایجادات کو تکتے ہوئے امیزون کے برساتی جنگلات میں رہنے والے ایک قبائلی فرد کے طور پر، کبھی بدھا کی پر سکون محفل میں تو کبھی سکون کی تلاش میں دوڑتے پھرتے اکیس ویں صدی کے ایک سرگرداں انسان کے طور پر!

الغرض پوری دنیا اور ہر دور کی سیر ہوجاتی ہے!

اگر آپ تنقیدی اپروچ رکھتے ہیں اور کسی نظریاتی مخالف کو سننے کا اچھا خاصا حوصلہ رکھتے ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھ لیں۔ شعوری انقلاب، زرعی انقلاب، بکھرے انسانوں کا مل جل کر کچھ کر گزرنے کی صلاحیت اور باقی انواع پر اس کے خاطر خواہ اثرات، سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے علاوہ اور بھی بہت ساری باتیں سیکھنے کو ملیں گی۔

شاید آپ کو اپنے کچھ سوالات کے جوابات نہ ملیں یا ہو سکتا ہے کہ جوابات تسلی بخش نہ ہوں لیکن پھر بھی کتاب پڑھنے کا فائدہ کچھ کم نہ ہو گا۔ آپ کے ذہن میں نئے سوالات کو جنم دینا، سوچنے کے لیے نئے زاویے فراہم کرنا اور ذہن میں موجود ممکنات اور ناممکنات کی فہرست میں تبدیلی لانا وہ کام ہیں جو یہ کتاب بخوبی کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک ان باتوں کی بڑی اہمیت ہے۔

پڑھتے وقت یہ بات ذہن نشین رہے کہ حراری مذہب کو خالص سائنسی بنیادوں پر پرکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے انسانوں کی گھڑی ہوئی کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتا البتہ انسانوں کو اکٹھا کرنے کے حوالے سے مذہب کے کردار کو سراہتا ضرور ہے۔ چونکہ مذہب میں ہمیں بہت سارے عقائد، مثلاً نزول وحی، پر ایمان بالغیب لانا پڑتا ہے، اس لیے مذہب کی اس طرح سائنسی جانچ پڑتال کرنے کا کوئی تک نہیں بنتا۔ لہٰذا اس حوالے سے اس کے نظریات سے متاثر نہ ہوں۔

کتاب کے اردو تراجم بھی آچکے ہیں لیکن میں انگریزی میں پڑھنے کی سفارش کروں گا۔ ایک تو حراری کی کتب کا اسلوب بہت دلچسپ اور عام فہم ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ہمارے اکثر مترجم مطلوبہ اصولوں کو نظر انداز کر کے کتاب کی اصل روح بڑی حد تک مجروح کر دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments