غربت سے امارت تک کا سفر مگر کیسے


وہ ملائشیا کے علاقے ایلور ستار کے جنوبی سمت میں پیدا ہوا۔ جہاں غریبوں کی جھونپڑیاں تا حد نظر دکھائی دیتی تھیں۔ اس دور میں ایلور ستار دو حصوں میں تقسیم تھا شمالی حصہ، جہاں امیروں کے بنگلے اور محلات اور جنوبی حصہ، جہاں غریبوں کی جھونپڑیاں اور کچے مکانات تھے۔

1925 ء وہ سال تھا جب اس نے اس جہان رنگ و بو میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والد کا دسواں بچہ تھا اس لئے گھر والوں کو اس کی پیدائش پہ کوئی خاص مسرت نہیں ہوئی۔ اس کا والد ایک سکول میں استاد تھا۔ جب وہ سن شعور کو پہنچا تو اس نے اپنے اردگرد غربت، بیماریوں اور افلاس کو رقص کرتے ہوئے پایا۔ اسی غربت کی وجہ سے وہ چھٹیوں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹھانے کے لیے کیلے بیچتا تھا۔ وہ بظاہر ایک عام شکل و صورت کا بچہ تھا جس کی شخصیت میں کوئی خاص کشش نہیں تھی۔ لیکن اس بچے کی آنکھوں میں امید کی ایک ایسی روشنی چمک رہی تھی جس سے ایلور ستار کے دوسرے بچے محروم تھے۔

اہل دانش کہتے ہیں کہ قدرت قابلیت سے زیادہ انسان کو اس کے عزم، یقین، مستقل مزاجی اور کچھ کر دکھانے کے جذبے کی بنیاد پر بہت کچھ عطا فرماتا ہے۔ یعنی جن لوگوں کا عزم اور یقین جتنا پختہ اور مضبوط ہو گا۔ اور وہ مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے کی تڑپ اور مسائل کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں گے وہی لوگ کامیاب ٹھہریں گے۔ صاف معنوں میں بات یہ ہے کہ اگر آپ خرگوش کی طرح چھلانگیں لگا کر دوڑ نہیں سکتے ہیں تو پریشان مت ہوں بس چیونٹی اور کچھوے کی طرح چلتے رہیے آپ ضرور اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

اس بچے کے عزائم بھی بلند تھے۔ محنت، جذبہ، جہد مسلسل اور جدوجہد کی وجہ سے اس کے اندر بے پناہ یقین کی دولت پیدا ہو گئی تھی۔ لہذا اس نے اسی ماحول میں تعلیم کو جاری رکھا اور ساتھ ساتھ کام کاج میں والدین کا ہاتھ بھی بٹھاتا رہا۔ جب اس نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی تو اسے طب کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو گیا اس کے والد نے اس کے اسی شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے قرض لے کر اسے ڈاکٹری کی تعلیم کے لیے سنگاپور بھیجا۔

وہاں اس نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے واپس آ کر اپنے علاقے میں نا صرف طبی خدمات سر انجام دینا شروع کیں بلکہ اس نے مقامی اخبارات میں سماجی مسائل پر نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لئے مضامین بھی لکھنے شروع کیے اس کے قلم میں بلا کی تاثیر تھی لہذا لوگ اس کی تحریریں پڑھ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے اس کے بعد اس کی کامیابیوں کا سفر شروع ہو گیا اور وہ 1964 ء میں پارلیمنٹ کا رکن بن گیا۔

اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں روز افزوں ترقی کرتے کرتے 1981 ء میں وہی غریب سکول ٹیچر کا بچہ جو چھٹیوں میں گزر بسر کے لئے کیلے بیچتا تھا اپنے ملک ملائیشیا کا وزیراعظم بن گیا اور پھر پورے 22 سالوں تک وہ لگاتار اپنے ملک کا وزیراعظم منتخب ہوتا رہا۔ اور پھر اس نے ریٹائر منٹ لے لی۔ غریب سکول ٹیچر کا یہ بچہ ملائیشیا کا وزیراعظم مہاتیر محمد تھا۔ جس نے اپنی لگن اور محنت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا مقام آپ پیدا کیا بلکہ ملائیشیا کو بھی ایک باوقار ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی ریٹائرمنٹ پر اس کی پارٹی نے انتہائی دلچسپ تبصرہ کیا تھا کہ ”شاید ایک ہزار برس تک ملائیشیا کو دوسرا مہاتیر محمد نصیب نہ ہو“

لولا ڈی سلوا برازیل کے انتہائی پسماندہ علاقے میں پیدا ہوا۔ سن شعور کو پہنچتے ہوئے اس نے بھی اپنے اردگرد غربت کو راج کرتے ہوئے پایا۔ اس کے والد غربت کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اسی غربت کے شکنجوں کی وجہ سے وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہا۔ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو والد نے غربت کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں پالش کی ڈبیہ اور برش دے دیا۔ وہ سارا دن گلیوں میں لوگوں کے جوتے پالش کرتا رہتا۔ لوگ اسے ”لولا“ کہہ کر پکارتے تھے۔

تھوڑا بڑا ہوا تو پالش کی ڈبیہ ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ مونگ پھلی بیچنے لگا۔ پھر وہاں سے وہ ایک لوہے کے مل پہنچا جہاں وہ سارا دن لوہا کوٹتا۔ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونے کا ارادہ کیا لیکن یہ ارادہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ایک ایسا انسان جو بارہ گھنٹے مزدوری کرے اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ لولا ڈی سلوا کی کہانی بڑی لمبی، دلچسپ اور تفصیل طلب ہے کالم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے ہم اسے مختصر کر کے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

قصہ مختصر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ہمت، محنت اور مستقل مزاجی کی وجہ سے بہت جلد مزدوروں کا لیڈر بن گیا۔ مزدور اس کو اپنا جیسا مزدور سمجھ کر اس کے گرد جمع ہوتے گئے۔ آخر کار وہ دور بھی آ گیا کہ یہی لولا ڈی سلوا جو بچپن میں پالش کرتا، مونگ پھلی بیچتا اور مل میں لوہا کوٹتا تھا اسی لولا ڈی سلوا نے برازیل کی تاریخ کے سب سے مقبول صدر کروڈوسو کو شکست دے دی جسے جدید برازیل کا باوائے آدم کہا جاتا تھا۔

یوں لولا ڈی سلوا تین مرتبہ صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد چوتھی مرتبہ صدر بن گیا۔ اسے برازیلی عوام نے سب سے زیادہ 61 فیصد ووٹ دیے اور ایک ایسا شخص برازیل کا صدر بن گیا جو ایک مزدور کے گھر میں پیدا ہوا تھا اور جس کے پاس کسی بھی سکول کالج اور یونیورسٹی کی کوئی سند نہیں تھی۔

مہاتیر محمد اور لولا ڈی سلوا جیسے ہزاروں لوگ اس دنیا میں مثال بن کر ہمارے سامنے روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں جو پیدا تو غربت کی حالت میں ہوئے لیکن فقط انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا مقام آپ پیدا کیا۔ اور دنیا کے ان انسانوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئے جو محلوں اور بڑے کوٹھیوں سے دور جھونپڑیوں اور کچے مکانات میں پیدا ہوتے ہیں۔

ہمارا آج کا نوجوان ہر وقت غربت کا رونا روتا ہوا مایوس اور نا امید دکھائی دیتا ہے۔ صاحبان اہل حکمت و دانش میں سے کوئی ہے جو انہیں مہاتیر محمد اور لولاڈی سلوا جیسے اہل عزم و ہمت کی ہزاروں کہانیاں سنا کر ان کے پست حوصلوں کو بلند کر سکے۔ یہ بات درست ہے کہ کسی کے حالات زندگی پڑھ کر اور کسی کی کہانی سن کر ہم اس جیسا نہیں بن سکتے ہیں لیکن کیا ہم ان کی زندگیوں سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کر سکتے؟ کیا ان سب کے باوجود محنت کی وہ چنگاری شعلہ نہیں بن سکتی جو اللہ تعالی نے انسان کے اندر فطرتی طور پر رکھ دیا ہے۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جس انسان کو اللہ تعالی نے صحت و تندرستی کے ساتھ اس دنیا میں غریب پیدا کیا ہے تو اس کو اپنی غربت کا رونا نہیں رونا چاہیے۔ بلکہ عزم و ہمت اور محنت کے ساتھ اپنے آپ کو کسی مقام تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

انٹیل کے بانی اینڈریو گروو بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جنہوں نے غربت سے امارت تک کا سفر اپنی محنت اور جدوجہد کے ذریعے طے کیا۔ انھیں 1997 ء میں سال کے کامیاب بزنس مین کا ایوارڈ ملا۔ اسی سال صحافیوں کی ایک ٹیم نے ان کا ایک خصوصی انٹرویو لیا۔ انٹرویو میں صحافیوں کی ٹیم کے کسی رکن نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ دنیا بھر کے بیروزگار نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں تو اس نے حیرت کے ساتھ کہا تھا ”بے روزگار“ میرے خیال میں تو دنیا میں کوئی بے روز گار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر قدرت نے آپ کو دو ہاتھ اور دو پاؤں دے کر سلامتی کے ساتھ پیدا کیا ہے تو آپ بے روزگار کیسے ہو سکتے ہیں؟ صحافیوں کی ٹیم نے حیرانی کے ساتھ پھر سوال کیا کہ اس وقت تو دنیا میں کروڑوں بلکہ اربوں لوگ بے روزگار ہیں تو اینڈریو گروو نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ” شاید آپ نالائق، سست اور ہڈ حرام لوگوں کو بے روز گار کہہ رہے ہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments