پلے سے دینا


کامیابی کی عمارت بہت سے ستونوں پہ کھڑی ہوتی ہے۔ اس میں کئی ایک شہتیر لگائے جاتے ہیں جیسے محنت ’صبر‘ عاجزی ’لگن‘ ہمت ’ثابت قدمی‘ ایمانداری ’انفرادیت اور بہت سے ایسے عوامل جو کامیابی کے سفر میں نا صرف زاد راہ کا کام دیتے ہیں بلکہ پیچھے آنے والوں کے لئے نشان منزل بھی بنتے جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں زاد راہ ہیں یعنی دوران سفر کام آنے والی ہیں۔ لیکن کامیابی کو پانے کے لئے کچھ کارج ایسے بھی ہیں جو سفر سے پہلے کرنے ضروری ہیں۔

ستونوں کی طرح ان کی بھی تعداد مختلف اور متعدد ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم ان میں ’دینا‘ ہے۔ کہ جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں اس میں سے ہم دوسروں کو کیا دے رہے ہیں۔ چاہے کوئی دنیاوی تجارت ہو یا دنیاوی معاملہ۔ ہر دو میں اگر دوسروں کو دینے کے وصف کو ہم اپنی اولین ترجیح بنا لیں تو کامیابی یقینی صورت میں جلوہ گر ہو جائے گی۔ اور ایسی ہی کامیابی فقیدالمثال اور پائیدار کہلائے گی۔

کسی ماہر بازاریابی (مارکیٹنگ ایکسپرٹ) نے کہا تھا کہ بازار میں آپ کا مال نہیں بلکہ آپ کا دوسروں کو درپیش مسئلے کا حل بکتا ہے۔ یہ فارمولا کامیابی کی منزل کے تعین میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ فی زمانہ ایسا ہی ہے ’مہیا کردہ حل اگر مقبول ہو جائے تو اس کے ساتھ نہ صرف نئی راہیں کھلیں گی بلکہ افق پہ نئے ستاروں کو بھی چمکنے کا موقع ملے گا۔ اس سے وابستہ پیسہ تو بہرحال ضرور ملے گا۔

کامیابی کا سب سے زیادہ انحصار مسلسل محنت پہ ہوتا ہے۔ اور چونکہ محنت کا صلہ زیادہ تر کچھ وقت کے بعد ملتا ہے تو یہ بھی ایک طرح سے غیب پہ ہی ایمان لانے والی بات ہے۔ محنت سب ہی کرتے ہیں لیکن کامیابی سب کے قدم نہیں چومتی ’جیسے میراتھن دوڑ میں سب بھاگتے ہیں لیکن اول نمبر کسی ایک ہی کو ملتا ہے۔ وہ سب لوگ جو محنت کرنے کے ساتھ ساتھ شاقی رہتے ہیں ان کی محنت میں اتار چڑھاؤ بھی اسی طرح سے آتے رہتے ہیں اور نتیجتاً کامیابی والی منزل بھی اسی تناسب سے کچھ قوس اور دور ہوتی جاتی ہے۔

کسی بھی بات کی جزئیات کو سمجھانے کے لئے اگر اس کے مالی پہلووں کا تقابلی جائزہ بیان کر دیا جائے تو بات اپنے سب مضمرات سمیت سمجھ آ جاتی ہے۔ اسی بات کو بابا جی اشفاق صاحب نے یوں سمجھایا تھا کہ ایک روز مسجد میں نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوئی اور ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ کسی نے دروازے ہی سے بابا نور سائیں کے لئے صدا لگائی کہ آپ کا دوست نزع کی کیفیت میں ہے ’فوراً آپ کو بلایا ہے تو نور سائیں جی نے نماز توڑ دی اور دوسروں کو بھی حکم دیا کہ نماز توڑ دیں۔ اسی موقعے پہ بات سمجھانے کے لئے بابا نور سائیں نے وہ یادگار‘ سچا اور سچا جملہ کہا تھا کہ ”عبادت کی قضا ہے لیکن خدمت کی قضا نہیں۔“

اصل معاملہ تب پیش آیا جب بابا جی اشفاق صاحب نے رکشے والے کو کرائے سے کچھ تھوڑے سے زیادہ پیسے دیے تو بابا نور سائیں کہنے لگے کہ پورے پانچ روپے ہی دے دیتے۔ یہ سخاوت کی رمز ہی ابھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مزید یہ کہہ دیا کہ: ”آپ نے کون سا اپنے پلے (جیب) سے دینے تھے ’آپ نے بھی تو دیے ہوئے میں سے دینے تھے“ ۔ یہ واقعہ بابا جی اشفاق صاحب نے ابن انشاء کے گوش گزار کیا تو غیر ارادی طور پہ ابن انشاء نے اس کو آزمایا۔

دیے ہوئے میں سے دینے جیسا آفاقی سچ رائیگاں کیسے جا سکتا تھا ’کچھ ہی عرصے کے بعد ابن انشاء کو لاہور آ کر یہ سچ بابا جی اشفاق صاحب کو واپس کرنا پڑا کہ دیے ہوئے میں سے دینے کے بدلے جو مل رہا ہے وہ سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ قرآن مجید میں مالک کل نے خود کو قرض حسنہ دینے والوں کے لئے اجر عظیم بیان کیا ہے۔ غالب گمان ہے کہ اس اجر عظیم میں پیسے کے بدلے پیسہ یقیناً ایک کمتر شے ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments