کیا حسن نثار قوم کو عمرانی ہسٹریا کا شکار بنانے کی غلطی پر معافی مانگے گا؟


وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں اور انتہائی زیرک انداز سے اپنے منصب کا حق ادا کر رہے ہیں۔ دھیما انداز، بیلنس گفتگو، ٹو دی پوائنٹ جواب اور موقع کی مناسبت سے باڈی لینگویج ہر جیسچر سے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا وقار جھلک رہا تھا۔ شہزادی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو جنھوں نے یہ تاریخی جملے کہے تھے اور انہی جملوں کو تحریک عدم اعتماد کی رات انتہائی ذلت آمیز انداز سے جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تھی تو بلاول نے بھی اسمبلی کے فلور پر دہرائی تھے، ”ڈیموکریسی از دی بیسٹ روینج“ جس کی بہترین سیاسی تربیت اس وقت نظر آئی جب امریکہ میں ان سے سابقہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فوراً اپنے ملک کا حقیقی وزیر خارجہ ہونے کی حیثیت سے اپنے سابقہ وزیر اعظم کے دورے کا دفاع کیا اور اس دورے کو ملک کی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیا۔

سیاست ظرف، رکھ رکھاؤ اور بہترین جمہوری رویوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا نام ہے اور بلاول میں سیاسی پختگی، خاندانی تربیت اور وقار کی وہ جھلک نظر آئی جس کا آج ہمارے ملک میں بہت زیادہ فقدان پایا جاتا ہے۔ بلاول کے اسی امریکہ کے دورے کے متعلق سماء ٹی وی پر حسن نثار کی گفتگو سن رہا تھا جس میں اینکر نے سوال پوچھا کہ آپ بلاول کے امریکی دورے اور عمران خان کے دورہ روس کا دفاع کرنے کے بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

حسن نثار نے سوال سنتے ہی کہا ”شاباش بلاول، ویلڈن اینڈ کیپ اٹ اپ“ مزید کہا کہ یہ ہے باوقار، سمجھدار اور بطور نوجوان سیاستدان کی حیثیت سے ایک بہترین پرفارمنس۔ میں باقی نوجوان سیاستدان مریم نواز مونس الٰہی اور حمزہ شہباز سے بھی سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے کی توقع رکھتا ہوں۔ ہماری نسل اور آپ کے بزرگوں نے جو جھک مارنی تھی وہ مار چکے اب آپ ان راہوں پر مت چلیں اور بلاول کا یہ باوقار انداز بھٹو کے نواسے پر خوب جچا ہے اسی انداز کو برقرار رکھو۔

آپ ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہو کوئی قبائلی دشمن نہیں ہو۔ ہر وقت ایک دوسرے میں کیڑے نکالنا کوئی اچھا رویہ نہیں ہے۔ حسن نثار کی اس گفتگو سے مکمل اتفاق ہے مگر حضور آپ نے عمران خان کے نام پر جو متھ میکنگ کر کے قوم کو شخصی ہسٹریا کا شکار بنایا تھا آپ کی اس سوچ اور جھک کا مداوا کون کرے گا؟ آپ کو عمران کی بائیس سالہ جدوجہد اور ساڑھے تین سالہ اقتدار کے دوران ان کی متواتر ”جھک بازیاں“ نظر نہیں آئیں؟ جس بندے کے گفتگو میں اس حد تک نرگسیت چھپی ہو کہ پوری تقریر پر لفظ ”میں میں“ بھاری پڑ جاتا ہو، ہر وقت منہ سے نفرت کی جھاگ، بے ربط گفتگو اور اپنے حریفوں کی کردار کشی جس کا پسندیدہ موضوع ہو وہ انتقامی سیاست تو کر سکتا ہے باوقار سیاست نہیں کر سکتا۔

مریم نواز کے متعلق انتہائی بیہودہ گفتگو اور وہ بھی آپ کے آئیڈیل لیڈر کے منہ سے، جس کا آپ نے دن رات ہر ٹی وی چینل پر بیٹھ کر دفاع کیا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اور اب ایک دم سے یوٹرن لے کر بلاول کی تعریفیں اور باوقار سیاست کی باتیں حسن نثار کے منہ پر جچتی نہیں ہیں۔ باوقار طریقہ یہ ہو گا کہ حسن نثار قوم کو عمران خان کے متعلق اپنی جھوٹی سچی دانش وری کے بل بوتے پر بے وقوف بنانے پر معافی مانگے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔

جو بدزبانی کا کلچر عمران خان نے فروغ دیا ہے اور جس قسم کی ذہنیت کا پرچار کیا ہے اس کا خمیازہ ہمیں نجانے کب تک بھگتنا پڑے گا؟ لیکن اگر عمرانی دانشور اپنی فسطائیت پر رجوع کر لیں تو ممکن ہے کہ نفرت کا یہ زہر اور گند زبانی کا کلچر جو عمرانی فلسفے کی باقیات ہیں اس کے اثرات جلد ختم ہو جائیں۔ عمرانی دانشوروں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ آپ ایک ایسے بندے کو ”عکس قائد“ ڈکلیئر کرنے کے لیے چرب زبانیاں کرتے رہے جو دوستی نبھانے کے فلسفے سے ہی واقف نہیں ہے وہ باوقار طریقے سے دشمنیاں کیا خاک نبھا پائے گا؟

دشمنیاں بھی باوقار لوگ ہی نبھاتے ہیں اور عمران خان کو شائستگی اور وقار سیکھنے کے لیے بلاول سے کوچنگ لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا حلف اٹھانے سے پہلے بلاول جب نواز شریف سے ملاقات کے لئے لندن ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو نواز شریف نے آگے بڑھ کر خیرمقدم کرتے ہوئے بلاول کو آگے کرنے کی کوشش کی تاکہ بیٹھ کر گفتگو کا آغاز ہو سکے مگر بلاول نے فوراً پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ آپ بڑے ہیں پہلے آپ آگے بڑھیں۔ حالانکہ بلاول کے آگے میاں نواز شریف کی پوری تاریخ تھی، انتقام کے نام پر جو مظالم اس کی والدہ پر ہوئے وہ ان سے بے خبر کیسے ہو سکتا ہے؟

مگر یہی سیاسی تربیت ہوتی ہے کہ دشمنی میں بھی ایک وقار کو برقرار رکھا جائے کیونکہ جمہوریت آگے بڑھنے کا نام ہے ڈیڈ لاک کا نہیں۔ اس لیے قبیلہ حسن نثار کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ جس فین کلب کے شہزادے کی شخصیت کو اخلاقیات کے برج خلیفہ پر بٹھا کر انہوں نے پینٹ کیا تھا اس اخلاقی مجسمے میں سے جو کچھ برآمد ہوا ہے وہ آپ انتہائی گھٹیا انداز میں مریم کے اوپر کیچڑ اچھالنے کی صورت میں ملاحظہ کر سکتے ہیں، اگر وہ اب بھی اس گند زبانی کا دفاع کرتے ہیں تو وہ خود بھی اس نفرت کے کلچر کی تپش سے زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments