رائے قائم کریں مگر رائے اور گالی میں تفاوت کو سمجھیں


مقتل اب کے ذرا نئی دھج سے سجا ہے۔ من چاہے کی مدح سرائی میں، نو دریافت حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ مقتل گاہ میں رائے سے اختلاف رکھنے والے کے لیے کہیں جائے سکون نہیں۔ جو ہم سے اختلاف رائے کرے گا، گویا وہ غدار ہے ؛ اس کے سوا کچھ نہیں۔ پست فکری کا یہ عالم ہے کہ جو کسی سے متفق نہیں، اس کے لیے کسی کا خود ساختہ عدالتی نظام حرکت میں آ جاتا ہے، جہاں سے فیصلہ آتا ہے کہ مار دو؛ لٹکا دو؛ کوڑے مارو؛ ہاتھ کاٹ دو؛ زبانیں کھینچ لو۔

مشاہدہ میں آتا ہے کہ اختلاف رائے سے زیادہ مخالف سوچ کی تضحیک سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ مباحث میں مکروہات کا بے دریغ استعمال ایک معمول بن چکا ہے۔ ایک نا مختتم میراتھن پورا زور لگا کے جاری ہے۔ اس دوڑ میں شریک ہر فریق کو بالآخر تھکن سے چور ہو کے گر پڑنا ہے۔

شدت پسندی کی وہ لہر چل نکلی ہے کہ اب مجنوں کی محبت کی شدت بھی ڈرانے لگی ہے۔ نفاق نے معاشرے کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ ہر کس و نا کس اس شخص کو قرار واقعی سزا دینا چاہتا ہے، جس پر سچا جھوٹا کوئی سا بھی الزام ہو۔ یہاں اس دیس میں مجرم اور ملزم کا فرق مٹ چکا ہے۔

”تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔“

کوئی شک نہیں کہ تعصب غلام بناتا ہے، اور متعصب کے ہاتھ اختیار آ جائے تو وہ اپنے ما تحت، یا کم زور پر ظلم ڈھاتا ہے۔ آئین و قانون مذاق محض بن کے رہ گیا ہے۔ اپنے تئیں اخلاق کے اونچے سنگھاسن پر بیٹھے، تصوراتی عدالتیں قائم کر کے اپنی دانست، ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں، خود ہی استغاثہ ہیں، خود ہی فرد جرم عائد کرتے ہیں اور منصف بن کر نا صرف سزا سناتے ہیں، بل کہ موقع مل پائے تو مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے کو تختۂ دار پر بھی لٹکانے کو تیار ہیں۔

اپنے ارد گرد دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی مباحث کے دوران میں متعدد عزیز و اقارب ایک دوسرے سے ناراض ہو چکے ہیں۔ کیا مکالمے کا نتیجہ یہی کچھ ہے؟ ہمیں تو اساتذہ نے بتایا تھا کہ مکالمہ، اذہان کو روشن کرتا ہے۔ مگر یہ مکالمہ نہیں، در اصل ایک دوسرے پر لفظوں کی یلغار ہے جو روحوں کو بسمل، دلوں کو چھلنی کر رہی ہے ؛ اور آپسی تعلقات کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ افواہیں نشر کرتے ابلاغی ادارے، صحافت کا جنازہ تو کب کا نکال چکے، قوم کی اجتماعی اخلاقیات تباہ کرنے میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔

کوئی ہے جو خواص و عوام کو مکالمے کے اصول سکھائے؟ ہے کوئی جو اظہار رائے کی آزادی اور دشنام طرازی کے مابین فرق بتلائے؟ ہے کوئی جو تعلیم دے کہ ہر شخص اپنے حالات، تجربات اور مشاہدے کی بنیاد پر مختلف نتائج پر پہنچتا ہے، اس لیے ایک ہی معاملے پر مختلف نقطۂ نظر ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ آجر، اجیر، تاجر، دکان دار، خریدار اور سیاست دان، بیورو کریٹ، سپاہی، وکیل، ملا، صحافی، حتا کہ عوام میں کوئی فرشتہ نہیں، نیز کسی کو شیطان بنا کر دکھانے سے بھی کوئی اچھا انسان نہیں ثابت ہو جاتا۔ ہم یہ کب سیکھ پائیں گے کہ زندگی اپنے محاسن پر گزاری جاتی ہے، مخالف کی کمی کوتاہیوں، خامیوں کے سہارے نہیں۔

ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ اپنی رائے قائم کرے، مگر رائے اور گالی میں تفاوت کو سمجھے۔ کسی کا گریبان پکڑنے کی آزادی انتشار پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔ اعلا ظرفی یہی ہے کہ اپنے سے جدا رائے رکھنے والے سے اختلاف کے با وجود احترام کی نسبت رکھیں۔

ہم سب اس مملکت کے باشندے ہیں۔ ہم سب کے حقوق یک ساں ہیں ؛ تو ترقی اور تاب ناک مستقبل کے خواہش مند شہریوں پر لازم ہے کہ یہاں ایسے ماحول کو پروان چڑھائیں، جس میں صحت مند مکالمے کی روایت ڈالی جا سکے۔ جہاں خواب دیکھنا جرم نہ ہو، تعبیریں پانے کے لیے جست جو کرنے والوں پر پتھر نہ برسائے جائیں۔ روا داری کے بیج نہ بوئے گئے تو ہماری نسلیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائیں گی۔ نہ جانے وہ کون لوگ ہیں، جو اپنے بچوں کے لیے ایسا سماج تعمیر کر رہے ہیں، جہاں ان کی اولاد کسی کی رائے سے اختلاف کرے، تو اس کی عزت، جان و مال کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ شدت پسندی آتش کے مانند ہے اور اس کے لیے کوئی اپنا پرایا نہیں ؛ جو اس کی لپیٹ میں آیا، اس کا کام اسے بھسم کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments