جہاد یا فساد؟


حکومت اگرچہ تمام تر اختیارات کا منبع ہوتی ہے مگر اختیارات کا غیر ضروری اور بے دریغ استعمال ہی حکومتوں اور اداروں کو کمزور بھی کرتا ہے۔

آئین ہر شہری کو احتجاج کا بنیادی حق عطا کرتا ہے اور حکومت کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ عوام اور حکومت کا تعلق کچے دھاگے جیسا ہوتا ہے۔ اگر عوام کی طرف سے کھینچا جائے تو حکمران کی طرف سے اسے ڈھیلا کر دینا چاہیے اور دھاگے کو ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ یہ دھاگہ ہی دراصل حکومت ہے۔

حکومت کی طرف سے سڑکیں اور موٹر ویز بند کرنے سے اس طرح کے احتجاج کو تو روکا نہیں جا سکتا مگر عام شہری جس کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق آئین پاکستان نے دیا ہے وہ ضرور سلب ہو جاتا ہے۔

آئین ہر شہری کو آزادانہ نقل و حرکت کا بھی حق عطا کرتا ہے اور حکومت کو عوام کے اس حق کا احترام کرنا چاہیے۔ سڑکیں اور موٹر ویز بند کرنے سے اول تو اس طرح کے احتجاج کو روکا نہیں جا سکتا مگر عام شہری کے آزادانہ نقل و حرکت کا آئینی حق ضرور سلب ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن یعنی عمران خان کو بھی دیکھنا ہو گا کہ جن مطالبات کو منوانے کے لئے وہ عوامی طاقت اور حکومتی رٹ کو آگ میں جھونکنا چاہ رہے ہیں ان مطالبات پر بات کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے اور پوری دنیا نے ہزار ہا سالہ تجربات کے بعد یہی سیکھا ہے کہ پارلیمنٹ، جمہوریت اور ادارے ہی عوامی مسائل کا مناسب حل نکال سکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ خود بھی 126 دنوں کا دنیا کا طویل ترین اور ناکام ترین دھرنا دے کر دیکھ چکے ہیں کہ حکومتوں کو اس طرح منتشر کرنا اور مطالبات منوانا آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی اپنی حکومت تحریک لبیک کے مطالبات میں خونی تصادم کے باوجود عملی طور پر یہ ثابت کر چکی ہے کہ حکومتوں کو طاقت سے نہیں جھکایا جا سکتا۔

اگر اس قضیے اور اس سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال کا ایک آزادانہ جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اپنے حکومت گرائے جانے کے مظلومیت کارڈ کی بنا پر اس وقت سیاسی افق پر پوری تابندگی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی مقبولیت کی انتہا پر ہے اور عوامی جذبات پر راج کر رہی ہے۔ موجود صورت حال میں خدانخواستہ اگر وہ حکومت گرانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ غیرارادی طور پر یہی کارڈ اتحادیوں کے ہاتھ میں دینے جا رہی ہے جس سے یہ اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ اتحادیوں کو شہید ہونے کا موقع عطا کر دیں گے اور شکست خوردگی کی صورت میں اپنی شہرت کو الیکشن تک برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گا۔

2014 کے برعکس میڈیا، اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کی پشت پناہی نہ ہونے کے بعد تحریک انصاف کے لئے اس دھرنے اور مارچ کو پرتشدد بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور تشدد کی صورت میں ساری ہمدردیاں حکومت کو حاصل ہو جائیں گی اور تحریک انصاف عوامی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جبکہ محض پرامن مارچ کر کے واپسی کی راہ لینا سیاسی ناکامی کا ایک بہت بڑا استعارہ ثابت ہو گی۔

بہرحال اب بگل بج چکا ہے اور پہلی غلطی لانگ مارچ کو یاسین ملک کی سزا کے دن شروع کرنا اور پولیس اہلکار کے قتل کی صورت پی ٹی آئی کی طرف سے ہو چکی ہے جس کا ردعمل حکومت کی طرف سے دفعہ 144 کا نفاذ، غیر قانونی گرفتاریاں، راستے بند کرنا اور تشدد کا ماحول بنانا ہے۔ مزید کون سا فریق کون سی غلطیوں یا دانش مندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس دانشمندی یا غلطی سے مزید کیا برآمد ہوتا ہے یہ دیکھنے کے لئے ایک ڈرامائی سیاسی منظرنامہ آگے منتظر ہے۔ دیکھتے ہیں بظاہر حکومتی عملداری کے خاتمے کی یہ کوشش پاکستانی عوام کی نظروں میں جہاد کا درجہ پاتی ہے یا فساد کا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments